بلحاظ مضمون ثابت شدہ ہے۔ اس لئے حدیث اگر لفظاً ثابت نہ ہو تو بھی معناً ثابت ہے۔ اس لئے علماء نے جگہ جگہ اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ جیسے امام رازیؒ نے آیت کریمہ یایہا الناس قد جاء تکم موعظۃ من ربکم کے تحت میں مراتب بیان کرتے ہوئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ پھر ایسے ہی آیت کریمہ قالت لہم رسلہم ان نحن الا بشر مثلنا کے نیچے مراتب وکمال ونقصان بیان کرتے ہوئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے) نیز امت کے کتنے ہی اعمال کو اعمال انبیاء سے تشبیہ دی گئی کہ وہ اعمال یا انبیاء کو دئیے گئے یا اس امت کو عطا ہوئے دوسری امتوں کو نہیں ملے۔ یعنی خصوصیات انبیاء سے صرف یہ امت سرفراز ہوئی۔ ’’وامتہ امۃ مرحومۃ اعطیتہم من النوافل مثل اعطیت الانبیاء وافترضت علیہم الفرائض التی افترضت علی الانبیاء والرسل حتی یاتونی یوم القیٰمۃ ونورہم مثل نور الانبیاء وذالک انی افترضت علیہم ان یتطہروا فی کل صلوٰۃ کما افترضت علی الانبیاء وامرتہم بالغسل من الجنابۃ کما امرت الانبیاء وامرتہم بالحج کما امرت الانبیاء وامرتہم بالجہاد کما امرت الرسل (بیہقی عن وہب ابن منبہؓ)‘‘
۹۷… اگر امم سابقہ (جیسے یہود) میں توبہ قتل سے ہوتی تھی۔ ’’یٰقوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتوبو الٰی بارئکم فاقتلو انفسکم (القرآن الحکیم)‘‘ (اے قوم بنی اسرائیل! تم نے گئو سالہ کو اپنا معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو اپنے پیدا کرنے والے کے آگے توبہ کر) تو اس امت کی توبہ قلبی مذامت رکھی گئی۔ ’’الندم توبۃ‘‘ (ندامت ہی توبہ ہے جب بندہ دل میں پشیمان ہوگیا اور آئندہ اس بدی سے باز رہنے کا عزم باندھ لیا تو توبہ ہوگئی نہ قتل نفس کی ضرورت رہی نہ ترک مال کی)
۹۸… اگر امت موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام کا صرف ایک قبلہ (بیت المقدس) تھا۔ اور اگر اہل عرب کا صرف ایک قبلہ (کعبہ معظمہ) تھا تو امت محمدیہ کو یکے بعد دیگرے یہ دونوں قبلے عطا کئے گئے جس سے یہ امت جامع امم ثابت ہوئی۔ ’’قد نریٰ تقلب وجہک فی السماء فلنولینّک قبلۃ ترضٰہا (القرآن الحکیم)‘‘
۹۹… اگر اور امتوں کی سیئات کا کفارہ دنیا یا آخرت کی رسوائی بغیر نہ ہوتا تھا کہ وہ سیئہ