بین المراد امور میں) تفکر اور تدبر کریں اور فرمایا کیوں ایسا نہیں ہوتا۔ (یعنی ضرور ہونا چاہئے) کہ ہر جماعت اور ہر طبقہ میں سے کچھ کچھ لوگ نکلیں اور دین میں تفقہ اور سمجھ پیدا کریں)
۹۵… اس لئے اگر انبیاء سابقین مفروض الطاعۃ تھے تو اﷲ ورسول کے بعد اس امت کے راسخین فی العلم علماء ہی مفروض الاطاعۃ بنائے گئے۔ ’’یایہا الذین آمنو اطیعو اﷲ واطیعو الرسول واولی الامر منکم۔(القرآن الحکیم)
۹۶… اگر علماء نبی اسرائیل کو احبار ورہبان کا لقب دیا بفجوائے ’’اتخذوا احبار ہم ورہبانہم ارباباً من دون اﷲ‘‘ تو اس امت کے راسخین فی العلم کو کانبیا بنی اسرائیل کا لقب دیاگیا۔ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ (میری امت کے علماء مثل بنی اسرائیل کے ہیں (نورانیت اور آثار کی نوعیت میں) یہ حدیث گو ضعیف ہے مگر فضائل اعمال میں قبول کی گئی ہے۔ چنانچہ امام رازیؒ نے اس سے دو جگہ استشہاد کیا ہے) اور انہیں انبیاء کی طرح دعوت عام اور تبلیغ عمومی کی طرح دعوت عام اور تبلیغ عمومی کا منصب دیا گیا۔ اسی لئے ایک حدیث میں علماء امت کے انوار کو انوار انبیاء سے تشبیہ دی گئی۔ ’’ونورہم یوم القیمۃ مثل نور الانبیاء (بیہقی عن وہب ابن منبہؓ)‘‘ (یہ امت امت مرحومہ ہے میں نے اسے نوافل دیئے جیسے انبیاء کو دیئے۔ ان کے فرائض وہ رکھے جو ابنیاء ورسل کے رکھے حتیٰ کہ جب وہ قیامت کے دن آئیں گے تو ان کی نورانیت انبیاء کی نورانیت جیسی ہوگی( جیسے اعضاء وضو چمکتے ہوئے ہونگے) کیونکہ میں نے ان پر پاکیزگی ہر نماز کے لئے وہی فرض کی ہے جو انبیاء پر فرض ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ (ہذا وضوئی ووضو الانبیاء من قبل) جس سے تین تین بار اعضاء وضو کا دھونا امت کے لئے سنت قرار دیا گیا جو اصل میں انبیاء کا وضو ہے ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء کے اعضاء وضو بھی اس طرح چمکتے ہوں گے مگر یہ وضو اور امتوں کو نہیں دیا گیا۔ بجز امت مرحومہ کے تو اسی کا نور مشابہ ہوگیا انبیاء کے نور کے۔ اور میں نے امت کو امر کیا ہے غسل جنابت کا جیسا کہ انبیاء کو دیا تھا اور امت کو امر کیاحج کا جیسا کہ انبیاء کو کیا تھا، چنانچہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے حج نہ کیا ہو اور امر کیا امت کو جہاد کا جیسا کہ رسولوں کو امر کیا۔ حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل کا بعض علماء نے انکار کیا ہے لیکن اس انکار کا مطلب زیادہ سے زیادہ ان الفاظ کا انکار ہوسکتا ہے۔ لیکن حدیث کے معنی یعنی علمائ۔ امت بعد امت کی تشبیہ انبیاء سے