محدود طبقہ زمین میں پناہ گزیں ہوں گے تو ان کے بارہ میں آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا۔ ’’قالو فما طعام المومنین یومئذ؟ قال التسبیح والتکبیر والتہلیل (مسند احمد عن عائشہؓ)‘‘ (لوگوں نے عرض کیا کہ آج کے دن یعنی یاجوج ماجوج کے قبضہ عمومی کے زمانہ میں مسلمانوں کے کھانے پینے کی صورت کیا ہوگی؟ فرمایا تسبیح وتکبیر اور تہلیل یعنی ذکر اﷲ ہی غذا ہوجائے گا۔ جس سے زندگی برقرار رہے گی۔ اور اسماء بنت عمیسؓ کی روایت میں ہے کہ مسلمانوں کے لئے کھانے پینے کی حد تک وہی چیز کفایت کرے گی جو آسمان والوں (ملائکہ )کو کفایت کرتی ہے ۔ یعنی تسبیح وتقدیس)
’’وفی روایت اسماء بنت عمیس نحو وفیہ یجزئہم ما یجزی اہل السماء من التسبیح والتقدیس (خصائص الکبریٰ ج۲ ص۲۱۵)‘‘
۹۳… اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی حفاظت کے لئے روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) مقرر تھے تو حضورﷺ کی حفاظت خود حق تعالیٰ فرماتے تھے: ’’واﷲ یعصمک من الناس (القرآن الحکیم)‘‘ (اور اﷲ بچائو فرمائے گا تمہارا (اے محمدﷺ) لوگوں (کے شر) سے)
ہو کیوں جبریل دربان محمدﷺ
خدا خود ہے نگہبان محمدؐ
(حضرت شیخ الندؒ)
۹۴… اگر اور انبیاء کی امتیں پابند رسوم وجزئیات اور بندھی جڑی رسموں کے اتباع میں مقلد جامد بنائی گئیں کہ نہ ان کے یہاں ہمہ گیر اصول تھے کہ ان سے ہنگامی احکام کا استخراج کریں اور نہ انہیں تفقہ کے ساتھ ہمہ گیر دین دیا گیا تھا کہ قیامت تک دنیا کا شرعی نظام اس سے قائم ہوجائے تو امت محمدی مفکر، فقیہ اور مجتہد امت بنائی گئی تاکہ اصول وکلیات سے حسب حوادث وواقعات احکام کا استخراج کرکے قیامت تک کانظم اس شریعت سے قائم کرے جس سے اس کے فتاویٰ اور کتب فتاویٰ کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچی۔ ’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (القرآن الحکیم) فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین‘‘(اور ہم نے آپ کی طرف اے پیغمبر ذکر (قرآن) اتارا تاکہ آپ کھول کھول کر لوگوں کے لئے وہ چیزیں بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئیں اور تاکہ لوگ بھی (ان