جی اٹھے اور صدیوں کی جاہل قومیں عالم وعارف بن گئیں۔ ’’ولن یقبضہ اﷲ حتی یقیم بہ الملۃ العوجاء بان یقولو! لا الہ الا اﷲ ویفتح بہ اعیننا عمیاء واذا ناصماً قلوبا غلفا (بخاری عن عمرو ابن العاص)‘‘ (حضرت عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی شان تورات میں یہ فرمائی گئی ہے کہ حق تعالیٰ آپ کو اس وقت تک دنیا سے نہیں اٹھائے گا جب تک کہ آپ کے ذریعہ سے ٹیڑھی قوم (عرب) کو سیدھا نہ کردے کہ وہ توحید پر نہ آجائیں اور کھولے گا آپ کے ذریعہ ان کی اندھی آنکھیں اور بہرے کان اور اندھے دل)
۹۰… اگر حضرت روح اﷲ کے ہاتھ پر قابل حیات پیکروں مثلاً پرندوں کی ہئیت یا انسانوں کی مردہ نعش میں جان ڈالی گئی تو حضورﷺ کے ہاتھ پر ناقابل حیات کھجور کے سوکھے تنہ میں حیات آفرینی کی گئی۔ ’’فصاحت النخلۃ صیاح الصبی (بخاری عن جابر)‘‘ (حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ کھجور کا ایک سوکھا تنا جس پر ٹیک لگا کر حضورﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے جب ممبر بن گیا اور آپﷺ اس پر خطبہ دینے کے لئے چڑھے تو سوکھا ستون اس طرح رونے چلاّٰنے لگا اور سبکنے لگا جیسے بچے سبکتے ہیں۔ تو آپ نے شفقت وپیار سے اس پر ہاتھ رکھا تب وہ چپ ہوا۔ (خصائص الکبریٰ ج۲ ص۷۵)) نیز آپ کے اعجاز سے دروازہ کے کواڑوں نے تسبیح پڑھی اور دست مبارک میں کنکریوں کی تسبیح کی آوازیں سنائی دیں۔ (خصائص کبریٰ)
۹۱… اگر مسیح کے ہاتھ پر زندہ ہونے والے پرندوں میں پرندوں ہی کی سی حیات آئی اور وہ پرندوں ہی کی سی حرکات کرنے لگے تو آپﷺ کے ہاتھ پر جی اٹھنے والے کھجور کے سوکھے تنے میں انسانوں بلکہ کامل انسانوں کی سی حیات آئی کہ وہ عازمانہ گریہ وبکاء اور عشق الٰہی میں فنائیت کی باتیں کرتا ہوا اٹھا۔ وہاں حیوان کو حیوان ہی نمایاں کیا گیا اور یہاں سوکھی لکڑی کو کامل انسان بنا دیا گیا۔ ’’کما فی الحدیث السابق‘‘ (جیسا کہ حدیث بالا میں گزرا)
اسطن حنا نہ از ہجر رسولﷺ
نالہ ہامی زدچو ارباب عقول
۹۲… اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمانوںمیں رکھ کر کھانے پینے سے مستغنی بنایا گیا تو حضرت خاتم الانبیائﷺ کی امت کے لوگوں کو زمین پر رہتے ہوئے کھانے پینے سے مستغنی کردیا گیا۔ یاجوج ماجوج کے خروج اور ان کے پوری زمین پر قابض ہوجانے کے وقت مسلمین ایک