زمین کی کنجیاں سپرد کردی گئیں جس سے مشارق ومغارب پر آپ کا اقتدار نمایاں ہوا۔ ’’اعطیت مفاتیح الارض (مسند احمد عن علی)‘‘
۸۶… اگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک یہ کہہ کر مانگا کہ وہ میرے ساتھ مخصوص رہے میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ چنانچہ ان کی امت اور رعیت میں سے کسی کو نہیں ملا۔ ’’رب ہب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی‘‘ تو حضور کو مشارق ومغارب کا ملک بے مانگے بلکہ انکار کے باوجود دیا گیا۔ جسے آپؐ نے اپنی امت کا ملک فرمایا جو آپ کے بعد امت کے ہاتھوں ترقی کرتا رہا۔ اور دنیا کے آخری دور میں امت ہی کے ہاتھوں پوری دنیا پر چھا جائے گا۔ ’’ان اﷲ روی فی الارض مشارقہا ومغاربہا وسیبلغ ملک امتی مازویٰ لی منہا (بخاری)‘‘ (اﷲ نے زمین کا مشرق ومغرب مجھے دکھلایا اور میری امت کا ملک وہیں تک پہنچ کررہے گا جہاں تک میری نگاہیں پہنچیں ہیں)
۸۷… اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا مسخر ہوتی کہ اپنے قلمر ومیں جہاں چاہیں اڑکر پہنچ جائیں تو حضورﷺ کے لئے براق مسخر ہوا کہ زمینوں سے آسمانوں اور آسمانوں سے جنتوں اور جنتوں سے مستوی تک پل بھر میں پہنچ جائیں۔ (جیسا کہ معراج کی مشہور حدیث میں اس کی تفصیلات موجود ہیں جن میں براق کی ہییت اور قدو قامت تک کی بھی تفصیلات فرما دی گئی ہیں)
۸۸… اگر سلاطین انبیاء کے وزراء زمین تک محدود تھے جو ان کے ملک کے بھی زمین تک محدود ہونے کی علامت ہے تو حضورﷺ کے دو وزیر زمین کے تھے ابو بکرؓ و عمرؓ اور دو وزیر آسمانوں کے تھے جبرئیل علیہ السلام ومیکائیل علیہ السلام جو آپ کے ملک کے زمین وآسمان دونوں تک پھیلے ہوئے ہونے کی علامت ہے۔ ’’ولی وزیر ای فی الارض وزیر ای فی السماء اما وزیر ای فی الارض فابو بکر وعمر۔ واما وزیر ای فی السماء فجبریل ومیکائیل (الریاض النفرۃ)‘‘ (میرے دو وزیر زمین میں ہیں اور دو آسمان میں، زمین کے وزیر ابو بکرؓوعمرؓ ہیں اور آسمان کے وزیر جبرائیل علیہ السلام ومیکائیل علیہ السلام ہیں)
۸۹… اگر حضرت مسیح علیہ السلام کو احیاء موتی کا معجزہ دیا گیا۔ جس سے مردے زندہ ہوجاتے تھے تو آپﷺ کو احیاء موتی کے ساتھ احیاء قلوب وارواح کا معجزہ بھی دیا گیا جس سے مردہ دل