بئراریس؟ سوف تعلمون ! (نبی کریمﷺ کے صحابی (…) انتقال کے بعد جبکہ ان کا جنازہ رکھا ہوا تھا تو اچانک ان کے ہونٹوں میں حرکت ہوئی یہ کلمات نکلے: ’’ اریس کا کنواں؟ کیا ہے وہ اریس کا کنواں؟ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔‘‘ صحابہ حیران تھے۔ کہ ان جملوں کا کیا مطلب ہے؟ کسی کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ دور عثمانی میں ایک دن حضرت ذی النورینؓ اریس کے کنویں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انگلی میں نبی کریمﷺ کی انگوٹھی تھی جسے آپ طبعی حرکت کے ساتھ ہلا رہے تھے کہ اچانک انگشتری طشتری سے نکل کر کنویں میں جاپڑی۔ قلوب عثمانی اور تمام صحابہ کے قلوب میں اضطراب وبے چینی پیدا ہوئی کنویں میں آدمی اترے۔ سارے کنویں کو کنگھال ڈالا۔ مگر انگشتری نہ ملنا تھی نہ ملی۔ آخر صبر کرکے سب بیٹھ رہے۔ اسی دن سے فتنوں کا آغاز ہوگیا اور بندھے ہوئے قلوب میں انتشار کی کیفیات آنے لگیں جو بعد کے فتنہ تخرب واختلاف کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ اور نبی کریمﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوگئی کہ ’’اذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنہا الیٰ یوم القیٰمۃ‘‘ (میری امت میں جب تلوار نکل آئے گی) پھر قیامت تک میان میں نہ جائے گی)چنانچہ اس فتنہ کے سلسلہ میں سب سے پہلا مظلمہ اور ہولناک ظلم حضرت ذی النورینؓ کی شہادت کی صورت میں نمایاں ہوا۔ اب سب کی سمجھ میں آیا کہ بیر اریس کا کیا مطلب تھا؟ یہ در حقیقت اشارہ تھا کہ قلوب کی وحدت انگشتری محمدی کی برکت سے قائم تھی۔ اس کا بیرء اریس میں گم ہونا تھا کہ قلوب کی وحدت اور امت کی یگانگت پارہ پارہ ہوگئی۔ جو آج تک واپس نہیں ہوئی۔ پس جنات کا مسخر ہوجانا آسان ہے۔ جو آج تک بھی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن انسانوں کے دلوں کی تالیف مشکل ہے۔ جو گم ہوکر آج تک نہیں مل سکی)
۸۲… اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کو منطق الطیر کا علم دیا گیا جس سے وہ پرندوں کی بولیاں سمجھتے تو حضورﷺ کو عام جانوروں کی بولیاں سمجھنے کا علم دیا گیا جس سے آپ ان کی فریادیں سنتے اور فیصلے فرماتے تھے۔ اونٹ کی فریاد سنی اور فیصلہ فرمایا (بیہقی عن حماد بن مسلمہ) بکری کی فریاد سنی اور اسے تسلی دی (مصنف عبدالرزاق) ہرنی کی فریاد سنی اور حکم فرمایا (طبرانی عن ام سلمہ) چڑیاکی بات سنی اور معالجہ فرمایا (بیہقی وابو نعیم عن ابن مسعود) سیاہ گدھے سے آپ نے کلام فرمایا اور اس کا مقصد سنا۔ (ابن عساکر عن ابن منظور) (ان روایات کے تفصیلی واقعات یہ ہیں: نمبر۱… ایک اونٹ آیا اور حضور اکرمﷺ کے قدموں پر گر پڑا اور رونے لگا اور کچھ بلبلاتا رہا تو آپ نے اس کے مالک کو بلا کر فرمایا کہ یہ شکایت کررہا ہے کہ تو اسے ستاتا ہے۔ اور اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادتا ہے۔ خدا سے ڈر۔ اس نے اقرار کیا اور توبہ کی۔نمبر۲… ایک بکری کو قصاب ذبح کرنا چاہتا تھا جو