اولین وآخرین آپﷺ پر غبطہ کریں گے جب کہ وہاں تک کوئی نہ پہنچ سکے گا۔ ‘‘اوّل من یکسی ابراہیم یقول اﷲ تعالیٰ اکسوا خلیلی قیوتیٰ بریطتین بیضاوین من رباط الجنۃ ثم اکسیٰ علی اثرہ ثم اقوم عن یمین اﷲ مقاماً یغبطنی الاولون والاخرون (رواہ الدارمی عن ابن مسعود)‘‘ (سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو روز محشر لباس پہنایا جائے گا۔ فرمائیں گے حق تعالیٰ میرے خلیل کو لباس پہنائو تو دو سفید براق چادریں جنت سے لائی جاویں گی اور پہنائی جاویں گی پھر ان کے بعد مجھے بھی لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میں کھڑا ہونگا۔ اﷲ کی جانب یمین ایک ایسے مقام پر کہ اولین وآخرین مجھ پر غبطہ کریں گے۔ یعنی میری کرامت سب پر فائق ہو جائیگی جن میں ابراہیم علیہ السلام بھی شامل ہیں)
۷۰… اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے پر جبریل سے زمزم کا سوت جاری ہوا جس سے وہ سیراب ہوئے تو حضورﷺ کی زبان مبارک سے پانی کے سوت پھوٹے جس سے حضرت امام حسن ؓ سیراب ہوئے۔ ’’بینما الحسن مع رسولﷺ اذ عطش فاشتہ ظماہ فطلب لہ النبی ﷺ مائً فلم یجدہ فاعطاہ لسانہ فمصہ حتی روی (ابن عساکر عن ابی جعفر)‘‘(اسی اثناء میں حضرت امام حسنؓ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک انہیں پیاس لگی اور شدید ہوگئی تو حضورﷺ نے ان کے لئے پانی طلب فرمایا مگر نہ مل سکا۔ تو آپﷺ نے اپنی زبان ان کے منہ میں دے دی جسے وہ چوسنے لگے اور چوستے رہے یہاں تک کہ سیراب ہوگئے)
۷۱… اگر حضرت یوسف علیہ السلام کو شطر حسن یعنی حسن جزئی عطا ہوا۔ تو حضورﷺ کو حسن کل یعنی حسن جامع عطا کردیا گیا جس کی حقیقت جمال ہے جو سرچشمہ حسن اور صفت خداوندی ہے۔ ’’فلما اکبرنہ وقطعن ایدیہن‘‘ (جب زنان مصر نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو اپنے ہاتھ قلم کرڈالے) جس کی شرح حضرت عائشہؓ نے فرمائی کہ زنان مصر نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو ہاتھ قلم کرلئے۔ اگر میرے محبوب کو دیکھ پاتیں تو دلوں کے ٹکڑے کر ڈالتیں۔ جو حضور کے حسن وجمال کی افضلیت اور کلیت کی طرف اشارہ ہے۔ (مشکوۃ)
۷۲… اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حق تعالیٰ نے کوہ طور اور وادی مقدس میں کلام کیا تو حضورﷺ سے ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک کلام فرمایا: ’’فاوحی الیٰ عبدہ ما اوحیٰ (القرآن الحکیم)‘‘ (سدرۃ المنتہیٰ کے پاس خدا نے اپنے بندے پر وحی کی جو اسے کرنا تھی)