)‘‘ (مجھے دو باتوں میں آدم علیہ السلام پر فضیلت دی گئی ہے میرا شیطان کافر تھا جس کے مقابلہ میں اﷲ نے میری مدد فرمائی یہاں تک کہ وہ اسلام لے آیا اور میری بیویاں میرے (دین کے) لئے مددگار بنیں (حضرت خدیجہؓ نے احوال نبوت میں حضورﷺ کا ساتھ دیا۔ ورقہ بن نوافل کے پاس لے گئیں۔ وقتاً فوقتاً آپﷺ کی تسلی تشفی کی۔ حضرت عائشہؓ نصف نبوت کی حامل ہوئیں اور دوسری ازواج مطہرات قرآن کی حافظ اور حدیث کی راوی ہوئیں) درحالیکہ آدم علیہ السلام کا شیطان کافر ہی تھا۔ اور کافر ہی رہا اور ان کی زوجہ ان کی خطیۂ میں ان کی معین ہوئیں کہ شجرۂ ممنوعہ کھانے کی ترغیب دی جس کو خطاء آدم علیہ السلام کہا گیا ہے)
۶۳… اگر حضرت آدم علیہ السلام کو حجر جنت (حجر اسود) دیا گیا جو بیت اﷲ میں لگا دیا گیا۔ حضورﷺ کو روضۂ جنت عطا ہوا جو آپ کی قبر مبارک اور ممبر شریف کے درمیان رکھا گیا۔ ’’ما بین بیتی ومنبری روضۃ ریاض الجنۃ (بخاری ج۱ ص۲۵۳ و مسلم)‘‘ (میری قبر اور ممبر کے درمیان ایک باغ ہے جنت کے باغوں میں سے)
۶۴… اگر حضرت نوح علیہ السلام نے مساجد اﷲ میں سے پانچ بت نکلوانے چاہے مگر نہ نکلے تو حضورﷺ نے بیت اﷲ میں تین سو ساٹھ بت نکالے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل گئے۔ اور نہ صرف بیت اﷲ سے بلکہ اس کے حوالی اور مضافات سے بھی نکال پھینکے گئے۔ ’’وقالوا لا تذرن الہتکم ولا تذرن وداً ولا سواعا ولا یغوث و یعوق ونسرا (القرآن الحکیم) ان الشیطن قدیئس ان یعبدہ المصلون فی جزیرۃ العرب (مشکوٰۃ) یایہا الذین آمنو انماالخمرو والمیسرو والانصاب ولازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ (القرآن الحکیم)‘‘ (اور (قوم نوح نے) کہا کہ دیکھو اپنے خدائوں (یعنی پانچ بتوں) و،دسواع، یغوث یعوق اور نسر کو نوح کے کہنے سے ہرگز مت چھوڑنا (چنانچہ نہیں چھوڑا تا آنکہ طوفان میں غرق ہوگئے) اور حضورﷺ نے تین سو ساٹھ بتوں کی ناپاکی کو ہمیشہ کے لئے نکال پھینکا۔ جیسا کہ سیر میں مرقوم ہے)
۶۵… اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مقام ابراہیم دیا گیا جس سے بیت اﷲ کی دیواریں اونچی ہوئیں تو حضور کو مقام محمود عطا ہوا جس سے رب البیت کی اونچائیاں نمایاں ہوئی اور ’’عسی ان یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘ (القرآن الحکیم) اور ساتھ ہی مقام ابراہیم کی تمام برکات سے پوری امت کو مستفید کیا گیا۔ ’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی‘‘ (قریب ہے کہ اﷲ آپ کو (اے نبی کریم) مقام محمود پر بھیجے گا جس پر پہنچ کر حضورﷺ حق تعالیٰ کی عظیم ترین حمدو ثناء