حضورﷺ کی طرف سے ایسے مواقع پر مدافعت خود حق تعالیٰ نے فرمائی اور کفار کے طعنوں کی جواب دہی خود ہی کرکے آپ کی برأت بیان فرمائی، کفار مکہ نے آپ پر ضلالت کجراہی کا الزام لگایا تو فرمایا: ’’ما ضل صاحبکم وما غویٰ‘‘ (نہ تمہارا ساتھی گمراہ نہ کج راہ) کفار نے آپ کو بے عقل اور مجنوں کہا تو فرمایا۔ ؎’’ ما انت بنعمۃ ربک بمجنون (تم اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں سے مجنون نہیں اور تمہارا ساتھی جنونی نہیں ہے) اور وما صاحبکم بمجنون‘‘۔ کفار نے آپ کی پاکیزہ باتوں کو ہوائے نفسانی کی باتیں بتلایا تو فرمایا: ’’وما ینطق عن الہوی ان ہو الاوحی یوحیٰ‘‘ (اور پیغمبر ہوائے نفس سے کچھ نہیں کہتا۔ وہ تو وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے) کفار نے آپ کی وحی کو شاعری کہا۔ تو فرمایا: ’’وما ہو بقول شاعر‘‘ اور فرمایا : ’’وما علمنٰہ الشعر وما ینبغی لہ‘‘ (اور وہ قول شاعر کا نہیں اور ہم نے انہیں (حضورﷺ کو) شاعری کی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی ان کی شان کے مناسب تھا) کفار نے آپ کی ہدایتوں کو کہانت کہا تو فرمایا: ’’وما ہو بقول کاہن‘‘ (اور وہ قول کا ہن کا نہیں ہے) کفار نے آپ کو مشقت زدہ اور معاذ اﷲ شقاوت زدہ کہا تو فرمایا: ’’وما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ‘‘ (ہم نے قرآن تم پر اس لئے نہیں اتارا کہ تم تعب اور محنت میں پڑجائو)
۶۰… اگر حضرت آدم علیہ السلام کی تحیت کے لئے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو حضورﷺ کی تحیت بصورت درودوسلام خو د حق تعالیٰ نے کی جس میں ملائکہ بھی شامل رہے اور قیامت تک امت کو اس کے کرتے رہنے کا حکم دیا اور اسے عبادت بنا دیا۔ ’’ان اﷲ وملئکتہ یصلون علی النبی یایہا الذین آمنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما (القرآن الحکیم)‘‘ (اﷲ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر۔ اے ایمان والو! تم بھی درودوسلام اس نبی پر بھیجو) اور السلام علیک یایہا النبی ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘‘
۶۱… اگر حضرت آدم علیہ السلام کا شیطان کافر تھا اور کافر ہی رہا تو حضورﷺ کا شیطان آپ کی قوت تاثیر سے کافر سے مسلم ہوگیا۔ ’’کما فی الروایۃ الاتیۃ‘‘ (جیسا کہ اگلی روایات میں آرہا ہے)
۶۲… اگر حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ پاک (حوا) ان کی خطا میں معین ہوئیں تو حضورﷺ کی ازواج مطہرات آپ کے کار نبوت میں معین ہوئیں۔ ’’فضلت علیٰ آدم بخصلتین کان شیطانی کافر افاعاننی اﷲ علیہ حتیٰ اسلم وکن ازواجی عونالی۔ وکان شیطان آدم کافر۔ وزوجتہ عونا علی خطیئۃ (بیہقی عن ابن عمر)‘‘