(۲۲)کذبوا ﷲ ورسولہ۔ (۲۳)انعم اﷲ علیہ وانعمت علیہ۔ (۲۴)الٓذین یؤمنون باﷲ ورسولہ۔ (۲۵)لا تقدموا بین یدی اﷲ ورسولہ۔)
۴۳… اگر اور انبیاء کا محض ذکر حق تعالیٰ نے فرمایا توا ٓپ کا ذکر اپنے نام کے ساتھ ملا کر فرمایا۔ دیکھو حاشیہ کی دو درجن سے زائد آیتیں۔
۴۴… اگر اور انبیاء نے روحانیت کے کمال کو خلوت وانقطاع اور رہبانیت کا پابند ہوکر دکھلایا تو آپﷺ نے اسے جلوتوں کے ہجوم جہاد، جماعت، سیاحت وسفر، شہری زندگی، معاشرت اور حکومت وسیاست کے سارے اجتماعی گوشوں میں سمو کر دکھلایا۔ ’’لا رھبانیۃ فی الاسلام‘‘ (الحدیث) ’’وسیاحۃ امتی الجہاد‘‘ (ابوداؤد ج۱ ص۲۴۷) ’’قل سیروا فی الارض (انعام:۱۱)‘‘ ’’لا اسلام الا بجماعۃ ‘‘ (مقولہ عمر ؓ) (اسلام میں رہبانیت (گوشہ گیری، انقطاع) نہیں۔ اور میری امت کی سیاحت وسیر جہاد ہے۔ کہہ دیجئے اے پیغمبر! کہ چلو پھرو زمین میں اور اسلام جماعتی اور اجتماعی چیز ہے)
۴۵… اگر اور انبیاء کوعملی معجزات (عصاء موسیٰ‘ یدبیضائ، احیاء عیسیٰ، نارخلیل، ناقہ صالح، ظلہ شعیب، قمیص یوسف وغیرہ دئیے گئے جو آنکھوں کو مطمئن کرسکے تو آپ کو ایسے سینکڑوں معجزات کے ساتھ علمی معجزہ (قرآن) بھی دیا گیاجس نے عقل، قلب اور ضمیر کومطمئن کیا۔ ’’انا انزلناہ قرآن عربیا لعلکم تعقلون (یوسف:۲)‘‘ (ہم نے قرآن اتارا۔ تاکہ عقل سے سمجھو)
۴۶… اگر اور انبیاء کو ہنگامی معجزات ملے جوا ن کی ذوات کے ساتھ ختم ہوگئے۔ کیونکہ وہ ان ہی کے اوصاف تھے تو حضورﷺ کو دوامی معجزہ قرآن کا دیا گیا جو تا قیامت اور بعد القیامت باقی رہنے والا ہے۔ کیونکہ وہ خداکا وصف ہے جو لازوال ہے۔ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ (ہم نے ہی یہ قرآن اتارا ہے۔ اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں)
۴۷… اگر اور حضرات کو وہ کتابیںملیں جن کی حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں تھا۔ اس لئے وہ بدل سدل گئیں تو آپﷺ کو وہ کتاب دی گئی جس کے وعدہ حفاظت کا اعلان کیا گیا۔ جس سے وہ کبھی نہیں بدل سکتی۔ ’’ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون (حجر:۹) لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ (فصلت:۴۲)‘‘ (ہم ہی نے یہ ذکرقرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اور فرمایا نہیں اس کے پاس بھٹک سکتا باطل، نہ آگے نہ پیچھے سے)
۴۸… اگر اور انبیاء سابقین کی کتابیں ایک ہی مضمون مثلاً صرف تہذیب نفس یا صرف