ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
طیبہ سے اُن کے قلوب ایسے مزکٰی اَور مجلیٰ ہوگئے تھے کہ اَوّلاً تو سرکشی اَور نافرمانی کا داعیہ ہی دِل میں نہ اُبھرتا تھا اَور اگر کبھی نفسانی اَثرات سے کوئی اُونچ نیچ کی بات ہوبھی جاتی تو اُس وقت تک چین نہ آتا جب تک کہ دُنیا ہی میں اُس کی تلافی نہ ہوجاتی۔ صحابہث کی شان اِس آیت ِمبارکہ کے عین مطابق تھی : وَالَّذِیْنَ ِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ، وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ ِلَّا اللّٰہُ، وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلَی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ ( سُورہ آل عمران آیت١٣٥) ''اور وہ لوگ کہ جب کر بیٹھتے ہیں کوئی کھلا گناہ، یا اپنے حق میں برا کام کریں تو یاد کریں اللہ کو اَور بخشش مانگیں اپنے گناہوں کی، اَور کون ہے گناہ بخشنے والا اللہ کے سوا؟ اَور اَڑتے نہیں اپنے کیے پر اَور وہ جانتے ہیں۔'' گناہوں سے بچنے کا یہ جذبہ دِلوں کی نیکی کے بغیر پیدا ہو ہی نہیں سکتا، اِس لیے اِن حالات کی روشنی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود صکے مذکورہ اِرشاد کی صداقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ واقعةً حضراتِ صحابہث اُمت میں سب سے نیک مخلص اَور شریعت پر عمل کرنے میں سب سے ممتاز تھے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَأَرْضَاہُمْ ۔ (ج) بغض وعناد سے اِجتناب : دِلوں کی نیکی کا ایک نتیجہ یہ بھی تھا کہ حضراتِ صحابہ ث آپس میں ایک دُوسرے کے خیر خواہ اَور بغض وعناد اَور حسد اَور کینہ سے دُور تھے۔ اِیثار وہمدردی، تواضع اَور فروتنی اُن کے رگ وریشہ میں سرایت کرگئی تھی۔ ہجرت کے موقع پر مہاجرین واَنصار میں جو مواخات (بھائی چارگی) قائم کی گئی اَور جس طرح دونوں فریقوں نے اِسے نبھایا وہ دُنیا کی تاریخ کا ایک بے نظیر واقعہ ہے۔ یہ محض اللہ تعالی کا فضل وکرم اَور عظیم الشان اِنعام تھا ورنہ اُس وقت کے عرب معاشرے میں اِس طرح کی اُلفت ومحبت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے اِس عظیم نعمت کی یاد دہانی اِس طرح بیان فرمائی ہے : وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ، لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ، ِنَّہ عَزِیْز حَکِیْم۔ (سُورة الأنفال آیت٦٣)