ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
سخت ترین سزائوں میںسخت اِحتیاط : اِس تفصیل کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جو سخت ترین سزائیں رکھی ہیں اُن میں سخت اِحتیاط کا بھی حکم دیا ہے۔ بالفاظِ دیگر اُس کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ گناہگار کو جہاں تک ہوسکے اِس خاص سزا سے بچادیا جائے۔ قاضی صرف وہ سزا دیدے جو اُس کی نظر میں مناسب ہو جو'' حد'' سے کمتر اَور خفیف ہو تاکہ مجرم کو توبہ کا اَور موقع مل سکے۔ اِس لیے اُس کی رحمت نے عورتوں کے خِلقی اَور فطری ضعف کو چاہے وہ حافظہ کا ہویا اَعصابی یا اُس کے باپردہ ہونے کا جس قسم کا چاہے سمجھ لیں عورتوں کی گواہی کا عذر قرار دیااَور اُنہیں ''حدود'' میں بطورِ گواہ پیش ہونے سے روک دیا ۔ یہ تو حدود اَور سزاؤں (تعزیرات) کا فرق تھا۔ ''خبر'' اَور'' شہادت'' میں فرق : ''خبر'' اَور'' شہادت'' میں شریعت نے یہ فرق کیا ہے کہ خبر مرد کی طرح عورت کی بھی صحیح تسلیم کی ہے، لہٰذا اَگر وہ کوئی خبر دے گی تو حاکم سُنے گا اَور فورًا کارروائی کرے گا جو اَز قسمِ تعزیر ہوگی یہ توہو ہی نہیں سکتا کہ اِسلامی قانون بھی نافذ ہوا اَور ظلم بھی ہوتا رہے۔ ایک مضمون میں نے پڑھا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے محلہ میں اپنی گلی میں بُرائی دیکھتی ہے تو وہ کیا کرے۔ اِس کا جواب یہی ہے جو عرض کیا گیا۔ اِشکال و جواب : ایک اِشکال یہ پیش کیا گیا ہے کہ قرآنِ پاک میں یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وغیرہ فرمایا گیا ہے۔ صیغے مذکر کے اِستعمال ہوئے ہیں اِس میں مراد عورتیں بھی ہیں لہٰذا جہاں جہاں گواہوں کا ذکر آیا ہے چاہے اُس میں مردوں کے لیے جواِلفاظ ہوتے ہیں وہی اِستعمال ہوئے ہوں پھر بھی عورتیں ضمنًا شامل ہونی چاہئیں۔ اِس لیے '' اَرْبَعَة '' اگرچہ مردوں کے لیے ہی اِستعمال ہوسکتا ہے مگر اِس میں عورتیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔ یہ اِشکال تو ظاہر ہے بہت ہی کمزور ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ سورۂ بقرہ کی آیت ٢٨٢ میں جہاں لین دین کا ذکر ہے صرف وہاں ایک مرد دَوعورتوں کا ذکر آیاہے لہٰذا اُسے حکمِ عام قرار دینا حنفی اُصولِ فقہ کے خلاف ہے، اُسے فقط لین دین میں ہی ضروری سمجھا جائے باقی جگہ ایک مرد کے ساتھ دوعورتوں کی قید نہ لگائی جائے بلکہ ہر جگہ چاہے ''حدود'' کی شہادت ہو مرد کی طرح عورت کو بھی گواہ تسلیم کیا جائے۔