ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
ہوئے اِرشاد فرمایا :لاَ تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَہَبًا مَا اَدْرَکَ مُدَّ اَحَدٍ وَلَا نَصِیْفَہ۔ (بخاری شریف ٣٦٧٣، مسلم شریف ٢٥٤١) ''میرے صحابہث کو برا بھلا مت کہو، اِس لیے کہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مد یا آدھے مد (کے ثواب) تک بھی نہ پہنچ سکے گا۔'' یعنی جو دِلی خلوص ایک صحابیٔ رسول کے دِل میں پیوست تھا ،جو اَجر وثواب کے اِستحقاق میں سب سے زیادہ مؤثر ہے اُس درجہ کا خلوص بعد والوں میں پایا نہیں جاسکتا۔ (ب) جذبۂ اِطاعت : حضراتِ صحابہ ث کی دِلوں کی نیکی ہی کا اَثر تھا کہ اُنہوں نے شریعت کی تعمیلِ کامل اَور قرآن وسنت کی پیروی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ دُنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ وہی عرب جہاں اِسلام سے پہلے اَور پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی بعثت سے قبل قتل وغارت گری، بے حیائی اَور فحاشی اَور جاہلانہ اعمال ورسومات کا چلن عام تھا، اِسلام کی روشنی پھیلتے ہی یہ علاقہ اَمن واَمان کا گہوارہ اَور عفت وعصمت اَور پاکیزگی وپاکبازی کا سرچشمہ بن گیا۔ حرام کی جگہ حلال، غلاظت کی جگہ طہارت، اَور خونریزی کی جگہ اَمن وسلامتی کا سکہ چلنے لگا۔ شراب ! جو اہلِ عرب کی گھٹی میں پڑی تھی اَور جسے پانی کی طرح اِستعمال کیا جاتا تھا اُس کی حرمت کا اعلان ہوتے ہی صحابہ ث نے بِلا چوں چرا مٹکے اُنڈیل دیے اَور بندھے ہوئے مشکیزوں کے دہانے کھول دیے، تاآنکہ مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ پڑی۔ (مسلم شریف ٢ ١٦٢) غزوۂ خیبر میں اعلان ہوا کہ پالتو گدھے حرام ہوگئے ہیں تو اگرچہ اُن کا گوشت دیگچوں میں پک رہا تھا لیکن حرمت کا پتہ چلتے ہی حضراتِ صحابہ ث نے پکتے ہوئے دیگچے اُلٹ دئے۔ (بخاری شریف ٢ ٦٠٤) کوئی بات پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی زبانِ مبارک سے صادر ہو یا آپ اسے ثابت ہو تو اُس کے سامنے آنے کے بعد یہ ناممکن تھا کہ کوئی صحابی اُس کی تعمیل میں ذرہ برابر بھی آنا کانی کرے، حکم کی بجا آوری