ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
اِس کا جواب یہ ہے کہ عورتوں کی شہادت کاذکر صرف لین دین میں آیا ہے۔ حدود میں عورت کی شہادت کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ سنت میں، لہٰذا اُسے لین دین جیسے معاملات ہی پرقائم رکھا گیا ہے'' حدود'' میں نہیں لایا گیااِس لیے خلافِ اُصول کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ اِمام مالک اَوراِمام شافعی رحمة اللہ علیہمانے تو یہ فرمایا ہے کہ عورتوں کی گواہی فقط مالی معاملات میں معتبر شمار ہو گی لہٰذا نکاح اَور طلاق میں اِن کی گواہی نہ چلے گی (تفسیر قرطبی ج ٣ ص٣٩٥) اَور مالی معاملات میں اِعتبار و اِعتماد کے لیے تحریر، گواہی، ضمانت، رہن وغیرہ بھی جائز رکھے گئے ہیں کیونکہ لین دین کی ضرورت ہر وقت پڑتی رہتی ہے اِس لیے عورتوں کی گواہی بھی جائز رکھ دی گئی ۔( تفسیر قرطبی ج ٣ ص ٣٩١) اِس میں حکمت کہ رجال کا ذکر نہیں فرمایا اَرْبَعَة فرمایا نیز عربی محاورہ/گرائمر : اَرْبَعَة جس کا ترجمہ ہے چار مرد، حدود کے اَحکام میں کئی جگہ لایا گیا ہے اِس کے ساتھ رِجَالْ کا لفظ لا نا قطعًا غیر ضروری تھا رِجَالْ کا لفظ وہاں لاناچاہیے جہاں نِسَاء (عورتوں ) کا ذکر آرہا ہو حدود میں سرے سے عورتوں کا ذکر ہی نہیں ہے اِس لیے صرف اَرْبَعَة فرمایا گیا۔ دیکھیے چوتھے پارہ میں سورہ نساء کی آیت ١٥ پھر اَٹھارویں پارہ میں سورة النور میں دو جگہ آیت ٤ اَورآیت ١٣ میں اَور یہی حکم توراة اَور اِنجیل میں ہے۔ (قرطبی ج٥ ص ٨٣) جناب ِ رسول اللہ ۖ اَور آپ کے بعد اَبوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اَور اُن کے بعد سب کا یہی طریقہ چلا یا آیا ہے کہ ''حدود'' میں عورتوں کی شہادت قبول نہیں کی گئی۔ سنت (حدیث) اِجماعِ اُمت اَور فقہ سب جگہ یہی ثابت ہے۔ نظربندی اَنگریز کی اِیجاد ہے اِسلام میں نظربندی نہیں : مضمون میں نظربندی کا جواز بھی تحریر کیا گیا ہے حالانکہ یہ نظر بندی اگر تھی بھی تو بدکارعورتوں کے لیے اُس وقت تک کے لیے بتلائی گئی تھی کہ جب تک دُوسرا حکم نہ اُترے۔ قرآنِ پاک میںاِرشاد فرمایا گیا : ''اگر چار مرد گواہی دے دیں تواُن عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت اُٹھالے یا اللہ تعالیٰ اُن کے لیے کوئی راہ مقرر کردے۔''( سورة النساء آیت ١٥ ) اِس کے بعد دُوسرا حکم نازل ہوا اَور خدا نے راہ نکال دی۔