ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں تم کو ضرورت کے لیے دی گئی ہیں اَور اِن سے تمہارا اِمتحان بھی مطلوب ہے کہ تم اِن سے بقدرِ ضرورت ہی تعلق رکھتے ہو یا بس اِن ہی کے ہوکر رہ جاتے ہو۔ کوئی عورتوں کی وجہ سے سود میں مبتلا ہے کوئی رِشوت میں تاکہ اِن کی زیور وغیرہ کی فرمائش پوری کی جائے اَور کوئی حرام و ناجائز تعلق میں گرفتار ہے اَور سب سے بڑھ کر فتنہ جو تمام فتنوں کی جڑ ہے وہ بے پردگی ہے لیکن شریعت نے اُم المفاسد (سب سے بڑے فتنہ) کے بند کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے اگر اُس پر عمل کیا جائے تو یہ فتنہ بند ہوسکتا ہے اَور وہ طریقہ پردہ ہے اَور یہ جو کہا جاتا ہے کہ صاحب ِ پردہ میں بھی فتنہ ہوجاتا ہے، اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ بھی پردہ میں کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی پردہ میں کچھ بے پردگی ہوتی ہے تو فتنہ ہوتا ہے اَور اگر پردہ میں ذرا بھی بے پردگی نہ ہو تو فتنہ کی کوئی وجہ نہیں۔ (الفیض الحسن) جہاں پردہ نہیں ہے ذرا اُن کے واقعات دیکھ لیجیے وہ واقعات دیکھ کر آپ خود کہیں گے کہ پردہ ہونا چاہیے۔ اِس وقت علماء کو وحشیانہ خیال والا کہتے ہیں مگر آئندہ چل کر معلوم ہوجائے گا۔ (العاقلات الغافلات) پردہ عورت کا فطری و طبعی تقاضا ہے : پردہ مسلمان عورتوں کی طبیعت کے خلاف نہیں کیونکہ مسلمان عورت کے لیے حیا (شرم) طبعی اَمر ہے لہٰذا پردہ طبیعت کے موافق ہوا اَور اِس کو قید کہنا غلطی ہے اِن کی حیا (شرم) کا تقاضا ہی یہی ہے کہ پردہ میں مستور (چھپی) رہیں بلکہ اگر اِنکو باہر پھرنے پر مجبور کیا جائے تو یہ خلافِ طبیعت ہوگا اَور اِس کو قید کہنا چاہیے۔ پردہ کا منشاء (سبب) حیا ہے اَور حیا عورت کے لیے طبعی اَمر ہے اَور اَمر طبعی کے خلاف کسی کو مجبور کرنا باعث ِ اَذیت (تکلیف) ہے اَور اَذیت پہنچانا دِلجوئی کے خلاف ہے پس عورتوں کو پردہ میں رکھنا ظلم نہیں بلکہ حقیقت میں دِلجوئی ہے۔ اگر کوئی عورت بجائے دِلجوئی کے پردہ کو ظلم سمجھے تو وہ عورت نہیں اُس سے اِس وقت کلام نہیں یہاں اُن عو رتوں سے بحث ہے جن عورتوں میں فطری حیاموجود ہے ،بے حیائوں کا ذکر نہیں۔ اَفسوس ہم ایسے زمانہ میں ہیں جس میں فطری اُمور کو بھی دِلائل سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ صاحبو! پردہ اَوّل تو عورت کے لیے فطری اَمر ہے۔ دُوسرے عقلی مصالح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے مگر آج کل بعض ناعاقبت اَندیش (اَنجام سے بے خبر) پردہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں میں بقسم کہتا ہوں کہ آج جو عقلاً پردہ کی مخالفت کرتے ہیں اَور پردہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اِن