ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
وہاں کے لوگوں سے گھلتے ملتے رہتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے مہاجرین جب مدینہ منورہ آئے تو یہاں بھی یہی ماحول ہوگیا اِسی لیے سورہ بقرۂ کی آیت ٢٨٢ میں لین دین وغیرہ معاملات میں لکھنے کا حکم اُترا اِس آیت میں 'خود لکھنا' جاننے کی ترغیب ہے نیز جناب ِ رسول اللہ ۖ نے حکم فرمایا تھا کہ ہر شخص اپنی وصیت لکھ کر رکھے (بخاری شریف ج ١ ص ٣٨٢ )اَور یہ حکم اُس وقت دیا تھاکہ جب تک میراث کے اَحکام نہ اُترے تھے۔ کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اگر چہ لکھنے کے لیے کاغذ عام نہ تھااِس لیے کاغذ نہ ہوتا توچمڑے، لکڑی کی تختیاں اَور پتے وغیرہ بھی کام میں لائے جاتے تھے اَور لکھنے پڑھنے کاکافی حد تک رواج توخود سورۂ بقرہ میں قرآنِ پاک کی اِس آیت ِشہادت ٢٨٢ ہی سے ثابت ہو رہا ہے ورنہ کہاجائے گا کہ حق تعالیٰ نے لوگوں کو مشکل کام کا حکم فرمایا جس پر وہ عمل نہ کر سکتے تھے۔ (بخاری شریف ج ١ ص ٣٩٦) لہٰذا اہلِ مغرب اَور مستشرقین کی تحریرات سے متاثر ہو کر یہ کہہ دینا کہ اُس زمانہ میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا، عورتیں جاہل اَور کم سمجھ ہوتی تھیں غلط ہے اَور تاریخ ِاِسلام کے منافی ہے اِبتدائی دَور میں بچوں کو لکھنا سکھانے کاعام دستور تھا کَمَا یُعَلِّمُ الْمُعَلِّمُ الْغِلْمَانَ الْکِتَابَةَ (بخاری ج ١ ص ٣٩٦) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے تو یہ ہوگئی تھی کہ عورتوں کو لکھنا مت سکھاؤ ۔(قرطبی ج ١٢ ص ١٥٨ ) حدود میں عورتوں کی گواہی نہ رکھنے کی ایک حکمت، نہ مکلف ہوگی نہ گناہ ہوگا : یہ بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ گواہی دینے والے کی طرف سے دُوسرے فریق کے دِل میں برائی آتی ہے اَور گواہ نشانہ بنتا ہے۔ خصوصًا آج کے دَور میں پھر اَگر عورتوں کی گواہی سخت سزا والے جرائم میں جاری رکھی جاتی جیسے کہ گواہ کے لیے گواہی دینے کا تاکیدی حکم موجودہے تو آپ خود ہی غور کریں کہ وہ آپس کی دُشمنی میں نشانہ ضرور بنیں گی تو پھر کیا حال ہوگا؟ عورتوں سے دُشمن کا بدلہ لینا بھی آسان ہے اَور مردوں کے کام پر چلے جانے کے بعد گھروں میں اکیلی رہتی ہیں مکانات کے دروازے بھی کھلے رہتے ہیں۔ اُن کی گواہی واجب کردینے میں عقلاً یہ خرابی بھی لازم آتی ہے جس میں نفع کم اَور نقصان عظیم ہے ۔یہ خدا کی رحمت ہے کہ اُس نے عورت کی شہادت ہی حدود میں ساقط کردی، نہ مکلف ہوگی نہ گناہ ہوگا کہ گواہی کیوں نہیں دی۔ شہادت کے موضوع پرطبع ہونے والے مضامین سے میں یہ سمجھاہوں کہ اَکثر لوگ'' سزاؤں'' اَور