ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
کو بہت سے آدمی ایسے ملیں گے ماحول ایسے ملیں گے کہ جب آپ اپنی بات کہیں گے تو توقع یہ ہوگی کہ وہ نہیں سُنیں گے لیکن نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سن لیں گے اَور وہ خوش ہوں گے وہ کہیں گے کہ ہمیں بتانے والے نے کبھی بتایا ہی نہیں ہے اُن میں آپ یہ طلب پائیں گے بظاہر یہ نظر آئے گا کہ اِن میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو حق کی راہ اِختیار کرسکے جو صحیح بات سمجھ سکے لیکن آپ جب بات کریں گے تو نتیجہ یہ نہیں نکلے گا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اُن میں سَچ مُچ ماننے والے نکل آئیں گے۔ یہ اِس اُمت ہی کی خصوصیت ہے پچھلی اُمتوں میں یہ نہیں رہا معاملہ ساری کی ساری اُمتیں خراب ہوگئیں اِس اُمت میں کیونکہ نبی آنا نہیں تو(اِن کی جگہ) علماء رہے اَور اُن کی زبان میں وہ اَثر رہا اَور اُمت میں یہ صلاحیت رہی کہ وہ قبول کرتی رہے تو آج تک نیکیاں بلاکسی حکومت کے اِرادے کے چلی آرہی ہیں۔اَفراد میں نیکیاں ملتی ہیں ماحول میں نیکیاںملتی ہیں دونوں طرح سے نیکیاں ہیں۔ نہی عن المنکر بہت مشکل کام ہے : اِس سے زیادہ سخت چیزجو ہے وہ نہی عن المنکر ہے بُرائی سے روکنا اَب برائی سے روکنے میں دُوسرا آدمی بُرا مان جاتا ہے کوئی غلطی کرے اُس کو آپ بتلائیں وہ بُرا مانے گا یہ اِنسان کی فطرت ہے تو اُس کو بہتر اَنداز میں بتلانا چاہیے اُس کو اَلگ لے جاکر سمجھادینا چاہیے غلطی پر متنبہ کردینا چاہیے اِس کے بھی آداب بتادِیے گئے ۔ اِس کی آخری حد : اَور اِس کا بھی ماحول بتایا گیا ہے یعنی علمائے کرام کہتے ہیں کہ اَگر کسی جگہ ایک اَور دس کا تناسب ہو یعنی ایک ٹھیک ہے دَس خراب ہیں تو اَمر بالمعروف نہی عن المنکر زبان سے یا ہاتھ سے اُس کے ذمہ نہیں رہتی اُس جگہ دِل سے اُس بُرائی کو بُراسمجھنا بس یہ کافی ہے۔ دلیل : کیونکہ قرآنِ پاک میں آیا ہے جہاد کے بارے میں کہ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِائَة صَابِرَة یَّغْلِبُوْا مِأَتَیْنِ پہلے یہ حکم تھا کہ ایک جو ہے وہ دس کے مقابلے میں پیچھے نہ ہٹے بلکہ لڑے، بعد میں اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہ