ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
''حدود'' میں فرق نہیں جانتے۔ اِسی طرح وہ'' شہادت'' اَور'' خبر'' کا فرق بھی نہیں جانتے۔ اِس فرق کو مدِّنظر رکھناضروری ہے کیونکہ شریعت ِپاک نے یہ فرق بتلایا ہے۔ ''تعزیر'' اَور'' حدود'' میں فرق : ''حدود'' خاص جرائم کی خاص سزائیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمادی ہیں اَور مجرم پر اُس کے اِقرار یا گواہوں کی شہادت کے بعد حاکم مجبور ہوتاہے کہ حد یعنی وہ خاص سزا جاری کرنے کا حکم دیدے اَور اُسے یہ اِختیار ہی نہیں ہوتاکہ وہ اُس میں کمی بیشی کرسکے ایسی تمام صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی شہادت اُن کی اَدنی کمزوری کی وجہ سے (جو حافظہ کی ہویا اَعصابی قوت کی) ساقط کردی ہے۔ عورتوں کو مکلف ہی نہیں کیا کہ وہ گواہی کے لیے پیش ہوں لہٰذااَیسے جرائم میں اُن کے پیش نہ ہونے اَور گواہی نہ دینے سے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ کچھ سخت جرائم کی یہ سزائیں ایسی ہیںکہ اُن میں اِنسان کی جان یا اُس کا عضو مثلاً ہاتھ یا عزت یا جان اَور عزت سب تلف ہوجاتے ہیں اِس لیے اُن کے ثبوت کے لیے سخت ترین شرائط مقرر فرمائی گئی ہیں کیونکہ ثبوت کے بعد پھر حاکم کچھ نہیں کرسکتا وہ مجبور ہوگا کہ حکم ِخداوندی کی رُو سے سزا کاحکم سُنادے۔ ''حد'' کی ایک خاص شکل : بلکہ'' حد'' کی ایک شکل تو ایسی ہے کہ اُس میں ایک دو دفعہ حاکم کے سامنے مجرم کے اِقرار کر لینے پر بھی یہ حکم ہے کہ حاکم اُدھر توجہ نہ دے بلکہ اُسے ٹلانے کی کوشش کرے مثلاً زِنا کا اِقرار اَگر حاکم کے سامنے زانی چار مرتبہ کرے گاتب وہ سزا ئے حد کا حکم دے گا گویا چار گواہوں کی گواہی ہوگئی کیونکہ زِنا کے ثبوت کے لیے دو گواہ بھی کافی نہیں قرار دیے گئے بلکہ چار گواہ ہونے ضروری ہیں۔ گواہی صریح ہوگی ،گول مول نہیں : اَور وہ بھی گو ل مول اِلفاظ میں نہیں صریح اِلفاظ میں گواہی دیں گے تو مانی جائے گی ورنہ نہیں وہ پوری طرح یہ بیان دیں گے ہم نے بِلا حجاب ایسا فعل دیکھا ہے اگر یہ بیان نہ دے سکیں تو حکم ہے کہ نہ اُس کا تذکرہ کریں اَور نہ گواہی کے لیے پیش ہوں، اَلبتہ ایسی صورت میں وہ یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ہم نے اِنہیں اِس طرح ناجائز حالت اَور حرکات کرتے دیکھا ہے اِس پر قاضی اُنہیں کوئی مناسب سزا دے گا اِسے تعزیر کہا جائے