ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
حج کے فرض ہونے کا حکم راجح قول کے مطابق ٩ ہجری میں آتا ہے اَور اِس سے ایک سال بعد یعنی اَگلے سال ١٠ ہجری میں آپ ۖ نے وصال سے تین مہینے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو '' حَجَّةُ الْوَدَاعْ '' کے نام سے مشہور ہے۔ ''رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا ''اِسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے، ایک اِس حقیقت کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (عبادت اَور بندگی کے لائق) نہیں اَور محمد (ۖ) اُس کے بندے اَور اُس کے رسول ہیں، دُوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے زکوٰة اَدا کرنا، چوتھے حج کرنا، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا۔'' (بخاری شریف ) فائدہ : اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اَگر نماز، زکوٰة ، روزہ سب کرتا ہو مگر حج فرض نہ کیا ہو تو اُس کی نجات کے لیے کافی نہیں۔ (''حیاة المسلمین'' اَز حکیم الامت مولانا اَشرف علی تھانوی ) حج کس پر فرض ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : '' اللہ تعالیٰ کی (رضا) کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے اُن لوگوں پر جو اُس تک جانے کی اِستطاعت رکھتے ہوں اَور جو شخص (اللہ تعالیٰ) کا حکم نہ مانے تو (اللہ تعالیٰ کا اِس میں کیا نقصان ہے) اللہ تعالیٰ تو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے ۔'' ایک روایت میں ہے : ''حضرت ابن ِعمر سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اَور اُس نے پوچھا کہ کیا چیز حج کو واجب کردیتی ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا سفر کا سامان اَور سواری۔'' (ترمذی، ابن ماجہ) قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں حج فرض ہونے کی شرط بتائی گئی ہے کہ حج اُن لوگوں پر فرض ہے جو سفر کرکے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی اِستطاعت رکھتے ہوں۔ ایک سوال کرنے والے صحابی نے اِس اِستطاعت کی وضاحت چاہی تو آپ ۖنے مختصراً اِس کے بارے میں فرمایا کہ ایک تو سواری کا اِنتظام ہو جس پر مکہ معظمہ تک سفر کیا جاسکے (خواہ اپنی ہو یا کرایہ کی) اَور اِس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اِتنا