ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
نیزجدید سائنس سے خطرناک حد تک مرعوبیت کا پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے ہر آن بدلنے والی سائنسی تحقیقات کو آسمانی کتابوںبالخصوص کلامِ اِلٰہی قرآنِ کریم کو پرکھنے کا معیار قرار دے دیا جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی سب سے بڑی دلیل اُس کا اعجاز ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن میں چیلنج کیا ہے۔ (ج)''فتویٰ دینے کا حق ہر کس و ناکس کو ہے۔'' ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں : '' ہر کسی کے لیے فتوی دینا جائز ہے اِس لیے کہ فتوی کا معنٰی رائے دینا ہے۔ '' ( حوالہ بالا) یہاں ڈاکٹر صاحب فتویٰ دینے جیسے اہم کام جس میں ( علامہ ابن القیم کے لفظ کے مطابق ) مفتی اَحکامِ اِلٰہی کے بیان میں رب کائنات کا ترجمان اَور اُس کی نیابت میں دستخط کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے '' لَمْ تَصْلُحْ مَرْتَبَةُ التَّبْلِیْغِ بِالرِّوَایَةِ وَالْفُتْیَا اِلَّا لِمَنِ اتَّصَفَ بِالْعِلْمِ وَ الصِّدْقِ......وَاِذَا کَانَ مَنْصَبُ التَّوْقِیْعِ عَنِ الْمُلُوْکِ بِالْمَحَلِّ الَّذِیْ لَا یُنْکَرُ فَضْلُہ وَلَایُجْھَلُ قَدْرُہ.....فَکَیْفَ بِمَنْصَبِ التَّوْقِیْعِ عَنْ رَبِّ الْاَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ، فَحَقِیْق بِمَنْ اُقِیْمَ فِیْ ھٰذَا الْمَنْصَبِ اَنْ یُّعِدَّلَہ عُدَّتَہ وَ یَتَأَھَّبُ لَہ اُھْبَتَہ وَ اَنْ یَّعْلَمَ قَدْرَ الْمَقَامِ الَّذِیْ اُقِیْمُ فِیْہِ '' کو رائے دینے کے لیے ہلکے پھلکے لفظ سے تعبیر کر کے صرف اپنے لیے ہی نہیںبلکہ ہر کس و ناکس کے لیے اِس کا جواز فراہم کررہے ہیں اَور اُنہوں نے قرآنِ کریم کی آیت فَاسْاَ لُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی اگرتمہیںعلم نہیں ہے تو اہلِ علم سے دریافت کرلو اَور حدیث ِنبوی مَنْ اَ فْتٰی بِغَےْرِ عِلْمٍ کَانَ اِثْمُہ عَلٰی مَنْ اَفْتَاہُ ( اخرجہ اَبوداود فی سننہ :٣٥٩ ، رقم:٣٦٥٩٣، بَابُ تَفْسِےْرِ الْقُرْاٰنِ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ ) (یعنی جو آدمی بِلا ( صحیح ) معلومات کے فتوی دے دیتا ہے تو اُس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا ) کو بالکل فراموش کر دیا ہے۔ (2) تفسیر قرآن میں من مانی تشریح یعنی تحریف ِمعنوی : قرآنِ کریم کی تفسیر کا معاملہ بڑا نازک ہے اِس لیے کہ مفسر آیت کریمہ سے مراد خداوندی کی تعیین کرتا ہے کہ اللہ نے یہ معنٰی مراد لیا ہے ، لہٰذا نا اہل آدمی کا اِس وادی میں قدم رکھنا اِنتہائی خطرناک ہے،