ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
اِن اَکابر مفسرین کے بیان کردہ معنٰی کو غلط ٹھہرا کر اپنے بیان کردہ معنٰی کو قطعی سمجھ کر اِسی پر مصر ہیں۔ صحیح جواب : آیت ِکریمہ کامقصد اللہ تعالیٰ کے لیے علمِ غیب کوثابت کرنا ہے اَور علمِ غیب دَرحقیقت اُس یقینی علم کو کہا جاتا ہے جو کسی سبب ظاہری کے بغیر براہِ راست کسی آلے کے بغیر حاصل ہو۔ طبی آلات سے ڈاکٹروں کو حاصل ہونے والا علم نہ یقینی ہوتا ہے اَور نہ ہی بلاواسطہ بلکہ وہ محض ظنی ہے اَور آلات کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے، لہٰذا اَلٹرا سونوگرافی کے ذریعے حاصل ہونے والے اِس ظنی علم سے قرآنی آیات پر کوئی اعتراض وَارِد نہ ہو گا۔ (ج) ڈاکٹر صاحب آیت ِکریمہ یٰأَ یُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَائَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا ۔ (سُورةُ الْمُمْتَحَنَةْ :١٢) کی تفسیر میں کہتے ہیں : '' یہاںلفظ '' بیعت '' اِستعمال ہوا ہے اَور بیعت کے لفظ میںہمارے آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی شامل ہے کیونکہ حضور ۖ اللہ کے رسول ہیں اَور سربراہِ مملکت بھی تھے اَور بیعت سے مراد اِنہیں سربراہِ حکومت تسلیم کرنا تھا، اِسلام نے اُسی دَور میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی تفویض کر دیا تھا۔'' ( اِسلام میں خواتین کے حقوق اَز ڈاکٹرذاکر نائیک ) یہاں بھی ڈاکٹر صاحب آیت کی غلط تشریح کرتے ہوئے اِس سے عورت کے ووٹ دینے کاحق ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ عورتوںکو حضور ۖ کی خدمت میں آ کر بیعت کرنا موجودہ دَور کے جمہوریت کے طرزاِنتخاب کی ہی قدیم شکل ہے جبکہ جمہوریت کی حقیقت سے جو لوگ واقف ہیں وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ تشریح بالکل واقع کے خلاف ہے اَور تفسیر قرآنی میںاپنی عقل کا بے جا اِستعمال ہے ، اِس لیے کہ موجودہ جمہوریت کے مطابق سب کواِختیار ہوتاہے کہ وہ سربراہ چننے کے لیے اپنی رائے دیں اگر کسی شخص پر کثرت و اِتفاق رائے نہ ہو تو سربراہ نہیں بن سکے گا۔اگر حضور ۖ کا بیعت کرنا دَرحقیقت ووٹ لینا تھا تو کیا اُن صحابیات کو اِختیار تھا کہ حضور ۖ کی سربراہی تسلیم کرنے سے اِنکار کر دیں ؟ (د) سورہ مریم کی آیت یٰأُ خْتَ ھَارُوْنَ مَا کَانَ أَ بُوْکِ امْرَأَ سَوْئٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّک