ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
گا، حد لگانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ دُوسری صورت یہ ہے کہ وہ خود زِنا کا چار بار اِقرار کرلے۔ خود اِقرار کرنا گواہوں کے مقابلہ میں کم وزن ہے : لیکن اِس کا اِقرار چاہے چار دفعہ ہی ہوگیا ہو پھر بھی وہ چار گواہوں کے برابر وزنی نہیں شمار فرمایا گیا اِس لیے اگریہ مجرم سنگسار کیے جاتے وقت اپنے اِقرار سے پھر جائے تو فورًا سزا روک دی جائے گی کیونکہ سزا بھی اُس کے اِقرار ہی کی وجہ سے تھی اَور وہ نہیں رہا لہٰذا سزا بھی نہ رہے گی اَور اُسے چھوڑ دیا جائے گا۔ سنگسار کے بجائے گولی ماردینا، شریعت میںرُجوع کا موقع : چند سال قبل سعودی عرب کے ایک عالم ڈاکٹر معروف دو البی پاکستان آئے تو اُنہوں نے پاکستان کے جج علماء سے تبادلہ خیال کے وقت اِس بات سے اِتفاق کیا کہ زانی کی سزا سنگسار کرنے کے بجائے گولی سے مار دینا ہونی چاہیے۔ پھر وہ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ سے ملنے گئے اُن کے سامنے اِس رائے کا قصہ سنایا تو مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ شریعت نے سنگسار کرنے کی سزا رکھی ہے اَور اگر وہ ایک دو پتھر کھانے کے بعد اپنے اِقرار سے رجوع کرے تو اُس کی سزا فورًا موقوف کردینے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات گولی سے سزا دینے میں نہیں ہے وہ تو گولی کھاتے ہی مرجائے گا اُسے رجوع کا موقع جو شریعت نے دیا تھا وہ آپ نے ختم کردیا۔ اِس گفتگو کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف نے شریعت کے حکم کی حکمت کی تعریف کی اَور اپنی رائے کی غلطی تسلیم کی۔ زِنا گواہی سے ثابت ہونے کی صورت میں بھی رُجوع کا اِحتمال : گواہوں کی وجہ سے اگر ثبوت ہوا ہو تب بھی یہ اِحتمال ہے کہ چار میں سے کوئی ایک گواہ سزا ملتے دیکھ کر اپنے بیان سے رجوع کرلے تو بھی سزا موقوف کردی جائے گی لیکن یہ بات کہ چار گواہ ہوں تب'' حد'' جاری کی جائے گی صرف زِنا کی صورت میں ہے باقی ''حدود'' میں دو گواہ کافی ہوتے ہیں۔ زِنا میں چار گواہ ہونے کی عجیب حکمت : کیونکہ زِناکی سزا میں اِنسان کی جان اَور عزت دو چیزیں جاتی ہیں اِس لیے گواہ ہوں تو چار اَور حاکم کے سامنے اِقرار ہوتو چار بار ہو تب حد لگانے کا حکم دیا جاسکے گا ورنہ نہیں۔