ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
'' مرد عورتوں کے معاملات کے اِنچارج ہیں اِس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو ایک پر بڑائی دی۔'' یہی قرآنِ پاک میں ہے یہی دُنیا میں ہو رہا ہے کیونکہ یہی حقیقت ہے باقی سب لفاظی اَور تصنع ہے جس کا کوئی وجود نہیں۔ وراثت کے اَحکام میں اِشاد ہوا :لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۔ (پارہ ٤ سورة النساء آیت نمبر ١١ )''ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔'' یہ کہناکہ پہلے زمانہ میں عورتوں میں حافظہ و علم نہ تھا اپنی تاریخ سے بے خبری پر مبنی ہے : (٢) مقالہ نگار حضرات اَور عوام کا یہ کہنا کہ اُس زمانہ میں عورتوں میں حافظہ اَور علم نہ تھا یہ بالکل ہی بے بنیاد اَور اپنی ہی تاریخ سے بے خبری پر مبنی ہے۔ عرب کی آب و ہوا میں رہنے والے لوگوں کاحافظہ آج بھی ہمارے علاقہ کے باشندوں کے حافظہ سے بہت بہتر ہے۔ اِسلام کی آمد کے زمانہ میں اَور اُس سے پہلے عورتیں شاعر ہوتی رہی ہیں عربی زبان، شعر و اَدب کی تاریخ میں عورتوں کی قوتِ حفظ وشعر کے عجیب عجیب واقعات موجود ہیں۔ خَنْسَاء وغیرہ مشہور شاعر گزری ہیں اَور اَزواجِ مطہرات میں حضرت عائشہ اَور حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہما بہت بڑی عالم تھیں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جیسی نواب خاندان کی اَور نواب کی بیوی بھی اَزواجِ مطہرات میں تھیں اَزوجِ مطہرات اَور بناتِ رسول اللہ ۖ میں کم اَزکم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تو اُس وقت موجود ہی تھیں جب شہادت کی یہ آیت ِ مبارکہ اُتری۔ کیا یہ علم اَور وحی کے گہوارہ میں پلنے والی کم سمجھ کم علم اَور جاہل تھیں؟ مکہ مکرمہ کے بچے بھی لکھنا پڑھناجانتے تھے اِسی لیے لین دین کے معاملات میں لکھنے کا حکم نازل ہوا : (٣) ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ اُس زمانہ میں لوگ لکھنا پڑھنانہ جانتے تھے۔ یہ بات بھی اپنی تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہے مکہ مکرمہ کے بچے بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، اُن کا پیشہ تجارت و صنعت تھا وہ ہر سال شام و یمن کے ششماہی تجارتی سفرکرتے رہتے تھے۔ دُنیا کی اعلیٰ تہذیب یافتہ قوموں میں جاتے اَور