ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
کوشش میںمصروف ہیں ۔ذیل میںاِن کی گمراہ کن باتوں سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں : (١) عقیدہ : عقیدہ جوایک اِنتہائی نازک چیزہے جس میں تھوڑی بھی لغزش بسا اَوقات اِیمان کے لیے خطرہ بن جاتی ہے اِس سے متعلق ڈاکٹر صاحب کی چند باتیں درج ذیل ہیں : (الف) '' وشنواَور برہما کے ذریعے اللہ کا پکارنا جائزہے '' ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام میں فرماتے ہیں :'' اللہ تعالیٰ کو ہندوؤں کے معبود ان کے نام سے پکارنا جائز ہے جیسے '' وشنو '' بمعنی رب اَور '' برہما'' بمنٰی ''خالق '' اِس شرط کے ساتھ کہ وشنو کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ اُس کے چار ہاتھ ہیں اَور پرندے پر سوار ہیں ۔'' ( اِسلام اَور عالمی اُخوت ص٣٣ اَز ڈاکٹر ذاکر نائیک) حالانکہ غیر عربی زبان کے اُن ہی اِلفاظ سے اللہ کو پکارنا جائز ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہوں ، اُن کے علاوہ سے جائز نہیں تو '' وشنو '' اَور '' برہما '' جو ہندوئوں کے شعار ہیں، اِن سے اللہ کو پکارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ (ب) '' اللہ کا کلام کو نساہے ، اُسے جانچنے کے لیے سائنس اَورٹیکنالوجی سے گزارنا ضروری ہے۔ '' ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام کے دوران کہتے ہیں : '' ہر اِنسان یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی مقدس کتاب ہی اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اَور اگر آپ چاہتے ہیں معلوم کریں کہ کون سی کتاب واقعی اللہ کا کلام ہے تو اُسے آخری اِمتحان یعنی جدید سائنس اَور ٹیکنالوجی سے گزاریں، اگر وہ جدید سائنس کے مطابق ہو توسمجھ لیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی کلام ہے''( اَلْجَوَابُ عَلٰی ثَلَاثِیْنَ جَوَابًا عَلٰی أَنَّ ذَاکِرُالْھِنْدِ وَأَصْحَابُ فِکْرِہ مُنْحَرِفُوْنَ ضَلَالًا لِلشَّیْخِ یَحْیَ الْحَجُورِیْ) اِس کلام سے ڈاکٹر صاحب کی گمراہ کن جرأت ، کتاب اللہ کے تئیں اُن کی فکری بے راہ روی