ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
''اَور اِن (مؤمنین) کے دِلوں میں محبت ڈال دی، اگر آپ جو کچھ زمین میں ہے سب (اِس غرض سے) خرچ فرمادیتے پھر بھی اِن کے دِلوں میں اُلفت نہ ڈال پاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اِن میں اُلفت ڈال دی۔'' حضرت زید بن اَسلم ص فرماتے ہیں کہ میں حضرت اَبو دُجانہ ص کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اُس وقت نزع کے عالم میں تھے لیکن چہرہ خوشی اَور مسرت سے چمک رہا تھا، میں نے عرض کیا کہ کیا بات ہے چہرے پر بشاشت پھیل رہی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ:میں اپنے اعمال میں دو باتوں کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے قابلِ قبول تصور کرتا ہوں، اَوّل یہ کہ میں اپنی زبان کو بیکار اَور لغو باتوں سے محفوظ رکھتا تھا، دُوسرے یہ کہ میرا دِل مسلمانوں کی طرف سے بالکل صاف تھا۔ (حیاة الصحابہ ٢ ٧٤٢) ابن بریدة اَسلمی ص فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس ص کے بارے میں کچھ نازیبا بات کہی تو حضرت ابن عباس ص نے اُس شخص سے فرمایا کہ تم مجھے برا بھلا کہتے ہو؟ حالانکہ میرے اَندر تین باتیں پائی جاتی ہیں: (١) میں جب بھی قرآنِ پاک کی کوئی آیت پڑھتا ہوں (اَور اُس کے علوم کا میرے سامنے اِنکشاف ہوتا ہے) تو میرے دِل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہر مسلمان کو وہ علم حاصل ہوجائے جو مجھے حاصل ہے۔ (٢) جب مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے کسی حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ اِنصاف کیا ہے تو مجھے دِلی مسرت ہوتی ہے اگرچہ وہ حاکم ایسی جگہ ہو جہاں مجھے کبھی مقدمہ لے جانے کا اِمکان نہ ہو (یعنی اُس خوشی کا تعلق اپنے کسی مفاد سے نہیں بلکہ صرف مِلّی اَور قومی مفاد سے ہے) ۔(٣) جب میں یہ سنتا ہوں کہ کسی علاقہ میں بارانِ رحمت ہوئی ہے تو مجھے قلبی مسرت ہوتی ہے اگرچہ میرا اُس علاقہ میں کوئی چرنے والا جانور نہ ہو۔ (حیاة الصحابہ ٢ ٧٤٣) گویا یہ حضرات عمومی طور پر خیر خواہی کے جذبہ سے سرشار تھے اَور پوری اُمت کی فوز وفلاح کے لیے دِل سے متمنی رہتے تھے اَور بعد کے زمانہ میں اُن کے درمیان جو اِختلافات اَور معرکے پیش آئے وہ بھی نفسانیت پر مبنی نہ تھے بلکہ خلوص پر مبنی تھے اَور ہر فریق دیانةً جس بات کو حق سمجھتا تھا اُس پر قائم تھا۔ اِس لیے اُن اِختلافی حادثات کی وجہ سے کسی بھی صحابی کے بارے میں بدگمانی یا طعن وتشنیع کی قطعاً اِجازت نہیں ہے۔(جاری ہے)