ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
ہدایا کے سلسلے میں حضرت کا یہ طریقہ تھا جو بڑی بڑی رقمیں پیش کرنے والے ہوتے تھے اُن سے فرمادیتے تھے کہ بھائی کسی غریب آدمی کو دیجیے میں تو پانچ سو روپیہ تنخواہ پاتا ہوں یہ بھی تواضع کی عجیب شان ہے۔ مراد آباد کا تذکرہ ہے کہ ایک دفعہ مراد آباد کے ایک مجذوب شمس الدین صاحب نے حضرت رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں ایک روپیہ پیش کیا حضرت نے فورًا ہی قبول فرمالیا اَور کچھ بھی نہ فرمایا حالانکہ اگر ہم جیسے پیٹ کے بھوکے کو کوئی ایک روپیہ دے تو اُس کے قبول کرنے میں توہین محسوس کریں گے لیکن ایک متواضع آدمی کے یہاں یہ نہیں ہوتا وہ محسوس ہی نہیں کرتا کہ اِس میں بھی کوئی توہین ہے۔ چنانچہ آنحضرت ۖ کا اِرشادِ گرامی ہے : مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ ۔ (الحدیث) ''جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اِختیار کی اللہ تعالیٰ اُس کو بلند کردیتا ہے۔ '' ایک مرتبہ حضرت کے یہاں فیض آباد سے ایک بزرگ حاجی عبد الرحیم صاحب تشریف لائے۔ آپاچی (حضرت کی اہلیہ محترمہ) نے حضرت سے عرض کیا کہ حاجی صاحب سے بچوں کے لیے تعویذ لادیجیے چنانچہ حضرت نے حاجی صاحب سے آکر فرمایا کہ حاجی صاحب بچوں کے لیے تعویذ دیجیے (اُس وقت مہمان خانہ بھرا تھا)۔ ملاحظہ فرمائیے جس کے آستانے سے روزانہ تعویذ تقسیم ہوتے ہوں وہ دُوسرے سے سوال کرے اَور ذرا بھی دِل میں خیال نہ لائے ہم جیسے لوگ تو کبھی بھی ایسا فعل کرنے پر آمادہ نہ ہوتے کیونکہ تعویذ فروشوں اَور جاہل پیروں کی دُکانداری کی چمک اِس سے زائل ہوتی ہے۔ گزشتہ سال ٧٦ ١٣ ھ میں حضرت راقم الحرف کی درخواست پر مدرسہ مدینة العلوم تشریف لائے خادم نے حضرت کی نشست کے لیے ایک جگہ مخصوص کردی اَور باقی تمام جگہ کو ایسا مسدود کردیا کہ حضرت دُوسری جگہ نہ بیٹھ سکیں لیکن جب حضرت تشریف لائے تو جس جگہ وہم بھی نہیں جاسکتا تھا وہاں آکر بیٹھ گئے۔ قیامِ آسام کا واقعہ ہے کہ ایک دِن تراویح سے فارغ ہوکر آپ اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے۔ ہم خدام کمرہ سے باہر آپس میں گفتگو کرنے لگے، جاکر دیکھا تو حضرت دسترخوان پچھارہے ہیں(تراویح کے بعد حضرت حاضرین کو آسام کے پھل کھلایا کرتے تھے اِسی لیے روزانہ دسترخوان بچھایا جاتا تھا)۔ غور فرمائیے کہ