ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
جہاں سینکڑوں خدام حاضر ہوں اُن سے خدمت لینے کے بجائے اُلٹی اُن ہی کی خدمت کی جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک دفعہ دیوبند کا واقعہ ہے کہ میدو پلہ دار (جو زِندہ ہے) نے ایک مرتبہ حضرت کی دعوت کی اَور عرض کرنے آیا حضرت! کھانا تیار ہے تشریف لے چلیے۔ حضرت کے یہاں اُس وقت مہمانوں کا کافی ہجوم تھا اَور کوئی خاص کام کررہے تھے، حضرت نے فرمایا میرا اِس وقت جانا نہیں ہوسکتا تم کھانا یہیں بھیج دو چنانچہ میدو دیگ لے کر حاضر ہوگیا۔ اَگلے دِن صبح کی نماز کے بعد خلافِ معمول حضرت میدو کے یہاں پہنچ گئے اَور دَروازے کی کنڈی جا کھٹکھٹائی، میدو نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت کھڑے ہوئے ہیں دیکھ کر رونے لگا اَور اَندر لے گیا ۔حضرت نے فرمایا تم غریب آدمی ہو میں نے اِس وجہ سے منع کردیا تھا کہ خواہ مخواہ تم زیرِ بار ہوگے۔ (اَز دَامانی صاحب) اِس واقعہ سے حضرت کی کتنی بڑی تواضع و اِنکساری ظاہر ہوتی ہے۔ آنحضرت ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ اگر کوئی غلام بھی میری دعوت کرے گا تو میں اُس کو قبول کرلوں گا ،اِرشادِ نبوی ۖ کی روشنی میں حضرت کا میدو کے یہاں جانا ملاحظہ فرمائیے۔ جب مہتمم صاحب پاکستان سے تشریف لائے تو مہتمم صاحب کے اِستقبال میں دارُ الحدیث میں ایک جلسہ ہوا۔ حضرت نے مہتمم صاحب سے فرمایا ہم تو آپ کے نوکر ہیں اَور آپ ہمارے آقا ہیں آپ ہمیں حکم دیں ہم تعمیل ِ حکم کے لیے حاضر ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ایک بڑے مجمع میں کتنی بڑی تواضع و اِنکساری کا اِظہار ہے غرض کہ حضرت کی جو شان بھی تھی نرالی تھی کس کس بات اَور کس کس اَدا کا ذِکر کیا جائے۔ حضرت کی ہر اَدا اَور ہر چیز اِس قابل ہے کہ دفتر کے دفتر سیاہ نہ کردِیے جائیں تب بھی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔(جاری ہے)