ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
طعام کے جو ریزے گرجاتے ہیں اُن کو اُٹھاکر کھالینا اِس میں بھی اِنتہائی درجہ کی تواضع کے ساتھ ساتھ اِظہارِ اِحتیاج و بندگی ہے۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اِذَا وَقَعَتْ لُقْمَةَ اَحَدِکُمْ فَلْیَأْخُذْھَا وَلْیُمِطْ مَا کَانَ بِھَا اَذًی وَلَایَدَعُھَا لِلشَّیْطَانِ وَلَایَمْسَحُ یَدَہ بِالْمِنْدِیْلِ حَتّٰی یَعْلِقَ اَصَابِعَہ ''حضور ۖ نے اِرشاد فرمایا ہے جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرپڑے تو اُس کو صاف کرکے کھالیا کرو اَور اُس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑو اَور ہاتھ کو اُس وقت تک رومال سے صاف نہ کرو جب تک اُس کو چاٹ نہ لو۔ '' ملاحظہ فرمائیے! تواضع، اِنکساری پیدا کرنے کی عجیب و غریب تعلیم ہے۔ حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ ریل میں بھی کھانے کا اِتفاق ہوا ہے اَور بارہا اِس چیز کو دیکھا ہے کہ اگر کوئی ریزہ دسترخوان سے نیچے جاگرا تو آپ سبقت کرکے صاف کرکے کھالیتے تھے۔ یہ بات بظاہر معمولی ہے مگر حقیقت اِس کی ظاہر اُس وقت ہوگی جب بڑا مجمع بھی ساتھ ہو اَور ایسا کیا جائے۔ چلنے میں آنحضرت ۖ کی عادتِ شریفہ تھی کہ نیچی نظریں کیے چلتے اَور اگر ہجوم ساتھ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرماتے کہ وہ آگے چلیں۔ کَانَ النَّبِیُّ ۖ اِذَا مَشٰی مَشٰی اَصْحَابُہ اَمَامَہ ۔ (الحدیث) ''جب آنحضرت ۖ چلتے تو آپ کے اَصحاب آگے چلتے تھے اَور آپ پیچھے۔ '' حضرت شیخ الاسلام کو بارہا دیکھا ہے کہ آپ طلباء کے ہجوم کو پیچھے چلنے سے ڈانٹتے اَور پیچھے چلنے سے منع فرماتے ۔یہ حالت ایک متواضع آدمی ہی کی ہوسکتی ہے ورنہ ہم جیسے اِنسان تو لوگوں کو اپنے آگے چلتا دیکھ کر بگڑ پڑتے ہیں۔ چنانچہ ہاپوڑ کا واقعہ ہے کہ آپ ہاپوڑ کی جامع مسجد سے تشریف لارہے تھے مسجد چونکہ اُنچائی پر ہے اِس وجہ سے مدرسہ والوں نے رکشہ کا اِنتظام کیا۔ اِتفاق سے حضرت مولانا اَبوالوفا صاحب بھی ساتھ تھے چنانچہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے مولانا اَبوالوفا صاحب کو بااِصرار اپنے ساتھ رکشہ میں سوار کیا اَور گوارہ نہ کیا کہ معمر عالم پیدل چلے۔