ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
کہنے لگے اچھا تم ہمارے بعض معبودوں کو مان لو (اُن کی مذمت نہ کرو) ہم تمہاری تصدیق کریں گے اَور تمہارے معبودکو پوجیں گے۔ اِس پر یہ سورت نازل ہوئی اَور آپ ۖ نے اُن کے مجمع میں پڑھ کر سنائی جس کا خلاصہ مشرکین کے طور طریق سے کُلِّی بیزاری کا اِظہار اَور اِنقطاعِ تعلقات کا اعلان کرنا ہے۔ بھلااَنبیاء علیہم السلام جن کا پہلا کام شرک کی جڑیں کاٹنا ہے ایسی ناپاک اَور گندی صلح پر کب راضی ہو سکتے ہیں۔ فی الحقیقت اللہ کے معبود ہونے میں تو کسی مذہب والے کو اِختلاف ہی نہیں۔ خود مشرکین اِس کا اِقرار کرتے تھے اَور کہتے تھے کہ ہم بتوں کی پرستش اِسی لیے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ کے نزدیک کردیں گے مَانَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ( زُمر۔ ٣) اِختلاف جو کچھ ہے غیراللہ کی پرستش میں ہے لہٰذا صلح کی جو صورت قریش نے پیش کی تھی اُس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ تو برابر اپنی روِش پر قائم رہیں یعنی اللہ اَور غیر اللہ دونوں کی پرستش کیا کریں اَور آپ ۖ اپنے مسلکِ توحید سے دستبردار ہوجائیں۔ اِس گفتگوئے مصالحت کو ختم کرنے کے لیے یہ سورت اُتاری گئی۔'' ہندوؤں کا تو یہ حال ہے کہ اُن کے تینتیس کروڑ معبود ہیں جن کو وہ خدا ئی میں شریک ٹھہراتے ہوئے ہر وقت پوجتے ہیں جبکہ کوئی مسلمان ایک اللہ کے سوا کبھی کسی اَورکی عبادت نہیں کرتا اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کے بیان کے روشنی میں ہندو مندر سے نکل کر مسجد کی طرف آئیں مگر آپ کے بیان سے تو یہ اَندیشہ ہو چلا ہے کہ مسلمان مسجد چھوڑ کر مندر کا رُخ کرلیں ۔ والعیاذ باللہ! لہٰذا یہ بات ہر مسلمان کو پیش ِنظر رکھنی چاہیے کہ مذہبی اَور اِعتقادی معاملات پر سوچ بچار کے بعد جچے تلے اِلفاظ میں اِظہار ِ خیال کیا جائے۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَلَاغُ