ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
اِسلامی حکومت میں قید اَور حکومت کی ذمہ داریاں : شریعت ِاِسلامیہ میں رعایا کے لیے قید کی سزا نہیں ہوتی ہے اِسی طرح نظر بندی بھی نہیں ہوتی یہ بھی قید ہی ہے اَور حبس یعنی قید اِسلام میں عذاب ہی شمار ہوتی ہے، چنانچہ قاضی کو شریعت کا یہ حکم ہے وہ چارج لیتے ہی سب سے پہلے قیدیوں کے کیس سنے (کذافی المغنی) تاکہ اُنہیں عذاب سے نجات ہو اِسلام میں سزاؤں میں جِلاوطنی اَور نگرانی بھی ثابت ہے۔ قید میں ڈال دینا یہ غیر اِسلامی ہے اَور شہنشاہی دَور کا طریقہ ہے۔ لہٰذا یا تو چور کو سزا دے دی جائے گی یا اُسے صاحب ِحق کسی طرح چھڑا دے گا۔ اِسی طرح یا تو قاتل کو قتل کردیا جائے گا یامقتول کے وارِث اُس سے خون بہا (دِیت) لے لیں گے یا اُسے معاف کردیں گے۔ قید کی سزا بہت ہی خاص حالات میں ہوتی ہے مثلاً مقتول کے بالغ وارِث تو قصاص (قتل کرنا) چاہتے ہیں لیکن اُسکے نابالغ وارِث بھی ہیں اُن کی رائے لینے کے لیے قاتل کو قید میں رکھا جائے گا کیونکہ قاتل خون بہا دے کر بچنا چاہتا ہے اَور یہ ممکن ہے کہ وہ بالغ ہو کر رائے دینے کے قابل ہوں تو قصاص کے بجائے دیت (خون بہا) لینے پر آمادہ جائیں اَور قاتل کی جان بچ جائے۔ اِسی طرح تارکِ صلوة وغیرہ کو سمجھانے کی غرض سے قید میں رکھا جا سکتاہے ورنہ نہیں۔ حدود و قصاص کی سزا میں تبدیلی نہیں ہوسکتی : چوری کی سزا میں قید، قتل کی سزا میں عمر قید اَور قتل کی سزا کو تبدیل کرنے کا حق بجائے وارِث کے گورنر یا صدر کو ہونا یہ سب انگریزی قانون ہیں۔ اِسلامی قانون میں یہ بے تکی باتیں نہیں ہیں ۔ عزت و جان کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے : اِسلامی قانون کی ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ جان کی حفاظت حکومت کا ذمہ ہوتی ہے لہٰذا اگر کسی کے قاتل کا پتہ نہ چلے تو حکومت بیت المال (اسٹیٹ بنک) سے مقتول کے ورثہ کو خون بہا یعنی سو اُونٹ یا اُن کی قیمت دے گی جس طرح حکومت کے ذمہ روٹی کپڑا مکان کا بندوبست ہوتا ہے اِس سے زیادہ جان اَور عزت کی حفاظت اُس کے ذمہ ہوتی ہے۔ یہ تو حدود میں عورتوں کی شہادت کے بارے میں بیان تھا۔