ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
عبداللہ بن عمرو بن عثمان، فرزدق شاعر وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب ج ٤ ص ٣٤٥) فقہ وفتاوی : قضا ء واِفتاء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پایہ تمام صحابہ میں بڑا تھا اِس موروثی دولت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی وافر حصہ مِلا تھا چنانچہ اُن کے معاصر اِن سے اِستفتاء کیا کرتے تھے ایک مرتبہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو جو عمر میں اِن سے بڑے اَور خود بھی صاحب ِ کمال بزرگ تھے، قیدی کی رہائی کے بارے میں اِستفتاء کی ضرورت ہوئی تو اُنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف رُجوع کیا اَور اُن سے پوچھا، اَبوعبداللہ قیدی کی رہائی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے اُس کی رہائی کافرض کس پر عائد ہوتا ہے، فرمایا اُن لوگوں پر جن کی حمایت میں وہ لڑا ہو۔ اِسی طرح ایک مرتبہ اُن کو شیر خوار بچہ کے وظیفہ کے بارے میں اِستفسار کی ضرورت ہوئی تو اُس میں بھی اُنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف رُجوع کیا آپ نے بتایا کہ پیدائش کے بعد ہی جب سے بچہ آواز دیتا ہے وظیفہ واجب ہوجاتاہے۔ اِسی طریقہ سے کھڑے ہو کر پانی پینے کے بارے میں پوچھا آپ نے اِس سوال پر اُسی وقت اُونٹنی کا دُودھ دہا کر کھڑے کھڑے پیا، آپ کھڑے ہو کر کھانے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے چنانچہ بھنا ہوا بکری کا گوشت لے لیتے تھے اَور کھاتے کھلاتے چلے جاتے تھے ۔(اِستیعاب ج ١ ص ١٤٨)۔ آپ کے تفقہ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ فقیہ اعظم حضرت اِمام اَبو حنیفہ حضرت اِمام باقر کے شاگرد تھے اَورحدیث و فقہ میں اُن سے بہت کچھ اِستفادہ کیا تھا اَور دینی علوم میں اِمام باقر کو سلسلہ بہ سلسلہ اپنے اَسلاف کرام سے بڑا فیض پہنچا تھا۔ خطابت : اِن مذ ہبی کمالات کے علاوہ اُس عہد کے عرب کے مروجہ علوم میں پوری دستگاہ رکھتے تھے، خطابت اُس زمانہ کا بڑا کمال تھا، آپ کے والد ِبزرگوار حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے عہد کے سب سے بڑے خطیب تھے، نہج البلاغہ کے خطبات آپ کے کمالِ خطابت کے شاہد ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اِس موروثی کمال سے وافر حصہ مِلاتھا اَور اُن کا شمار اُس عہد کے ممتاز خطیبوں میں تھا، واقعہ شہادت کے سلسلہ میں آپ کے