ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
ہر قسم کی شہادت میں مساوات کی طلب : عورتوں میں مردوں کے ساتھ مساوات کا جذبہ اُبھرتا جارہا ہے۔ باپردہ خاندان بے پردہ ہوتے جارہے ہیں۔ یورپ سے درآمد کیے ہوئے اَفکار دماغوں پر مسلط ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ جب اِسلام میں مساوات ہے تو ہر قسم کی مساوات ہونی چاہیے حالانکہ ''مساوات'' اَور ''مردوں کے شانہ بشانہ'' وغیرہ اِلفاظ پر یورپ میں بھی عمل نہیں ہے بس یہ خوشنما اَور معنویت سے خالی جملے ہیں اگر اِن پر عمل ہوتا تو رُوس ،برطانیہ اَور اَمریکہ میں باری باری ایک سربراہ مرد ہوا کرتا اَور ایک عورت ہوا کرتی اِس تناسب سے اِسمبلی، فوج، پولیس اَور تمام شعبوں میں نصف یا زائد عورتیں ہوا کرتیں لیکن ایسا قطعًا نہیں ہے۔ وہاں بھی عورتوں کی فطری صلاحیت اَور اُن کے صنف ِنازک ہونے کا لحاظ رکھتے ہوئے اُسی کے مطابق کاموں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اِتنی مساوات اِسلام میں بھی منع نہیں ہے اگر عورت چاہے تو ملازمت کر سکتی ہے اُس کے لیے گھریلو صنعت و تجارت بھی جائز ہے لیکن جائز کام کی ملازمت اَور تجارت ہو اَور باپردہ ہو۔ '' مساوات'' سے عورتوں کی مراد : مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ عورتوں کی خواہش یہ نہیں ہے کہ وہ مذکورہ بالا شعبوں میں ملازمتیں حاصل کریں اُن کی خواہش اَور لفظ ''مساوات'' سے مراد یہ ہے کہ اُنہیں بھی رشتہ اَزدواج میں مردوں کی طرح حقوق حاصل ہوں کہ اگر مرد طلاق دے سکتا ہے تو عورت کو بھی یہ حق حاصل ہو کہ وہ مرد کو طلاق دے سکے اَور جس طرح مرد باہر نکلتے اَور چلتے پھرتے ہیں اُسی طرح عورت بھی بے پردہ پھر سکے اُنہوں نے اِس کا مہذب نام ''مساوات'' رکھ لیا ہے۔ عورت کو طلاق کا حق : اِن دونوں باتوں میں سے اِسلام میں ایک بات تو بمشورہ علماء عورت حاصل کر سکتی ہے کہ بوقتِ نکاح یہ معاملہ خاص الفاظ سے طے کر لے لیکن وہ بے پردہ پھرے اَور اَجنبی مردوں سے مصافحہ کرے اِس کی اِجازت اِسلام میں نہیں ہے۔