ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
کیاہی اچھا ہوتا کہ آج سے بہت پہلے بلند نظری سے کام لیتے ہوئے لیگی قیادت زمینی حقائق کو تسلیم کرلیتی تو بہت کچھ کھوئے بغیر اِس خطہ کے باسی اَب تک بہت کچھ حاصل کرچکے ہوتے۔ پاکستان کی دُور اَندیش مذہبی ہراوَل سیاسی قیادت بہت پہلے سے پاکستان کی مقتدر قوتوں کو باوَر کراچکی ہے کہ خطہ میں پاک بھارت رسّہ کَشی جنوبی ایشیاء کی ترقی میں بہت بڑی رُکاوٹ ہے جس کے ہوتے ہوئے قیامِ اَمن ناممکن ہے اَب اگرچہ تاخیر سے ہی خود مسلم لیگ کے سربراہ اِن حقائق کا اِدر اک کرچکے ہیں تو قوی اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں جنوبی ایشیا ء کے خطہ کی بنیاد پر ایسے اِقدامات ہوجائیں گے کہ جس کے نتیجہ میں اَمن اَور آزادی قائم ہو کر غیر ملکی دَخل اَندازی اَور بندر بانٹ کا سلسلہ ختم ہو جائے تاکہ ہم اِس قابل ہوجائیں کہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ اَلبتہ آخر میں یہ آگاہی بھی ضروری ہے کہ نواز شریف صاحب کا یہ فرمان کہ : ''جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں ہم بھی اُسی کو پوجتے ہیں'' بہت نامناسب ہے اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پوجاپاٹ کے معاملہ میں ہم اُن کے پیروکار ہیں وہ متبوع اَور اَصل ہیں اَور ہم اُن کے مقلد اَور تابع ہیں ،والعیاذ باللہ ! جبکہ اِس کے بجائے وہ یوں کہہ سکتے تھے کہ : ''جس رب کو ہم پوجتے ہیں اُس رب کو مشکل گھڑی میں بھارتی بھی کبھی پوجنے لگتے ہیں۔'' میاں صاحب کی بات سے تو موجودہ دَور میں'' دحدتِ اَدیان'' کی گمراہ کن مغربی تحریک کی تائید کا تأثر ملتا ہے جس کی اِسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔سورۂ کافرون کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ''چندرؤسائِ قریش نے کہا کہ اے محمد! (ۖ) آؤ ! ہم تم صلح کرلیں کہ ایک سال تک آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کیا کریں پھر دُوسرے سال ہم آپ کے معبود کو پوجیں اِس طرح دونوں فریق کو ہر ایک کے دین سے کچھ کچھ حصہ مل جائے گا۔ آپ ۖ نے فرمایا خدا کی پناہ! کہ میں اُس کے ساتھ (ایک لمحہ کے لیے بھی) کسی کو شریک ٹھہراؤں۔