ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
وقار و سکینہ : سکینت اَور وقار آپ کا خاص وصف تھا، آپ کی مجلس وقار اَور متانت کا مرقع ہوتی تھی اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مجلس کا پتہ بتایا کہ جب تم رسول اللہ ۖ کی مسجد میں داخل ہو تو وہاں لوگوں کا ایک حلقہ نظر آئے گا اُس حلقہ میں لوگ ایسے سکون اَور خاموشی سے بیٹھے ہوں گے کہ گویا اُن کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں یہ اَبو عبداللہ (حسین ) کا حلقہ ہوگا۔ اِنکسار و تواضع : لیکن اُس وقار و سکینہ کے باوجود تمکنت و خود پسندی مطلق نہ تھی اَور آپ حد درجہ خاکسار اَور متواضع تھے۔ اَدنیٰ اَدنیٰ اَشخاص سے بے تکلف ملتے تھے، ایک مرتبہ کسی طرف جار ہے تھے راستہ میں کچھ فقراء کھانا کھا رہے تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر اُنہیں بھی مدعو کیا، اُن کی درخواست پر آپ فورًا سواری سے اُترپڑے اَور کھانے میں شرکت کر کے فرمایا کہ تکبر کرنے والوں کو خدا دوست نہیں رکھتا اَور اُن فقراء سے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے اِس لیے تم بھی میری دعوت قبول کرو اَور اُن کو گھر لے جا کر کھانا کھلایا۔ اِیثار و حق پرستی آپ کی کتاب فضائل اَخلاق کا نہایت جلی عنوان ہے اِس کی مثال کے لیے تنہا واقعہ شہادت کافی ہے کہ حق کی راہ میں سارا کنبہ تہ ِ تیغ کرادیا لیکن ظالم حکومت کے مقابلہ میں سپر نہ ڈالی۔ اِستقلالِ رائے : حضرت حسن رضی اللہ عنہ سراپا حِلم تھے آپ کے مزاج میں مطلق گرمی نہ تھی بنو ہاشم اَور بنو اُمیہ میں بہت قدیم رقابت تھی لیکن حسن رضی اللہ عنہ نے اِس رقابت کوبھی دِل سے فراموش کر دیا تھا اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بنی اُمیہ کے مقابلہ میں خلافت سے دست بردار ہوگئے اِس باب میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا حال حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بالکل مختلف تھا، بنو اُمیہ کے مقابلہ میں آپ کسی دستبرداری اَور مصالحت کو پسند نہیں فرماتے تھے جس پر آپ کی تقریریں شاہد ہیں اِسی کا یہ نتیجہ تھا کہ جب اِمام حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اِرادہ ظاہر کیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے نہایت سختی کے ساتھ اِس کی مخالفت کی لیکن اِمام حسن رضی اللہ عنہ نے اُن کی مخالفت کے باوجود اپنا اِرادہ نہ بدلا اَور خلافت سے دستبرادار ہو کر دُنیا کو بتلا دیا