ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
حج : اِجتماعی بندگی کی علامت ( حضرت مولانا مصلح الدین قاسمی ،مدرسہ شاہی / مرادآباد،اِنڈیا ) رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہو گیا ،حج کے مہینے شروع ہو گئے ،ہر ذی اِستطاعت مومن بندے کے لیے بڑی آزمائش اَور قربانی کا وقت آگیا ۔ روزے دار اَبھی تک اپنا گھر چھوڑ کر مسجد میں اعتکاف کے لیے آپڑاتھا اَور اَب اُسے ملک بھی چھوڑنا ہے ،دیارِ محبوب کے لیے رخت ِسفر باندھنا ہے ،عام لباس چھوڑ کر عاشقانہ لباس زیب ِتن کرنا ہے،پُرتکلف رہن سہن کو خیر باد کہہ کر بے تکلف سادہ اَور زَاہدانہ روِش اَپنانا ہے۔ دُنیا کا ہرمسلمان چاہے اُس کا تعلق کسی بھی خطے یا کسی بھی ملک سے ہو، حج جیسے عظیم الشان فریضے کو اَدا کرنے کا ہمہ وقت خواہش منداَور محبوبِ حقیقی کی جلوہ گاہ دیکھنے کے شوق میں بسمل بنا رہتا ہے اَور اِس شوق کی آگ کو بجھانے کے لیے پوری زندگی کوششیں کرتا رہتا ہے اَورزِندگی کے جس مرحلے میں بھی اَسبابِ سفر مہیا ہو جائیں وہ موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ حضرت اِبراہیم علیہ السلام کی ندائے عام ''وَأَذِّ نْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ ''پرلبیک کہنے کا جذبہ سفر کی تمام مشکلات کو اُس کی نگاہ میں ہیچ بلکہ سفرِ حج کی تمام تکلیفوں کو راحت بنادیتا ہے اَور کیوں نہ ہوجبکہ حضرت اِبراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے اِس مقدس سرزمین کے لیے دُعائیں کرتے ہوئے فرمایا تھا : فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ ( سورہ اِبراہیم/٣٧) ''اے اللہ ! بعض لوگوں کے دِلوںکو اِن کی طرف مائل کردے ۔'' رب کریم نے اپنے نبی کی دُعا کو قبول فرمایا اَور اِس نداکو پوری دُنیا میں عام کرنے اَور تمام رُوحوں تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی : یَأْ تُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْ تِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ۔ ( الحج /٤٧) ''آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئیں گے آپ کی طرف پیدل چل کر اَور سوار ہوکردُبلے دُبلے اُونٹوں پر چلے آئیں گے دُور دَراز علاقوںسے ۔'' چنانچہ مومن بندے اِس عاشقانہ سفر میں ساری پریشانیاں بخوشی برداشت کرکے اپنے محبوب کے