ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
والدین کو بھی حج کرادیں۔ پہلے گھر کے سربراہ کا حج کرنا : بعض گھرانوں میں یہ رواج بھی دیکھنے میں آیا کہ جب تک گھر کا بڑا فرد حج نہ کرلے اُس وقت تک چھوٹے حج کرنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ بعض گھرانوں میں اِس کو ایک عیب سمجھاجاتا ہے کہ چھوٹا بڑے سے پہلے حج کرآئے، حالانکہ دُوسری عبادتوں یعنی نماز ، روزے اَورزکٰوة کی طرح حج بھی ایک ایسا فریضہ ہے جو ہر شخص پر اِنفرادی طورسے عائد ہوتا ہے ، خواہ کسی دُوسرے نے حج کیا ہو یا نہ کیا ہو ، اگر گھر کے کسی چھوٹے فرد کے پاس حج کی اِستطاعت ہے تو اُس پر حج فرض ہے، اگر بڑے کے پاس اِستطاعت نہ ہویا اِستطاعت کے باوجود وہ حج نہ کررہا ہوتو نہ اِس سے چھوٹے کا فریضہ ساقط ہوتا ہے، نہ اِسے مؤخر کرنے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہے۔ بیوی یا والدہ کو ساتھ لے جانے کا عذر : بعض لوگ وہ ہیں جن پر حج فرض ہے اَور اُن کے پاس اِس قدر پیسے ہیں جس سے وہ خود تو حج کرسکتے ہیں اَلبتہ اپنی بیوی یا والدہ کو حج پر لے جانے کی اِستطاعت نہیں رکھتے، لیکن وہ بیوی یا والدہ کے اِصرار کی وجہ سے یا اپنی مرضی سے اِس اِنتظار میں رہتے ہیں کہ جب بیوی یا والدہ کوساتھ لے جانے کے قابل ہوں گے اُس وقت میاں بیوی یا والدہ کو لے کر دونوں ساتھ حج کرنے جائیں گے۔ واضح رہے کہ بیوی یا والدہ کو ساتھ لے جانے کے اِنتظار میں حج کو مؤخر کرنا دُرست نہیں ،اَوربیوی یا والدہ کوبھی اپنی وجہ سے شوہر یا بیٹے کو حج فرض اَدا کرنے سے روکنا درست نہیں۔ خاوند کو چاہیے کہ اِس وقت وہ خود حج اَدا کرے پھر بعد میں اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو بیوی کو بھی حج کرادے۔ اپنی شادی کا بہانہ : بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک اِنسان کی شادی نہ ہوجائے اُس وقت تک حج فرض نہیں ہوتا خواہ کوئی عاقل بالغ ہو گیا ہو اَور کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، یہ بھی جہالت ہے کیونکہ حج فرض ہونے کا شادی بیاہ سے تعلق نہیں، لہٰذا اَگر کسی شخص پر حج فرض ہوگیا ہو لیکن وہ غیر شادی شدہ ہو تب بھی اُس کو حج کرنا فرض ہے بلکہ ایک حدیث میں تو یہاں تک بھی ہے کہ حج نکاح سے مقدم ہے لہٰذا شادی کے اِنتظار میں حج کو مؤخر کرنا گنا