ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
دِل میں وحدانیت کا نور روشن ہو جاتا ہے جس کے قلب کی کھڑکیاں روشنی پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، گویا کہ اَنبیاء کی مثال سورج کی سی ہے کہ جب اُس کے طلوع کا وقت قریب ہوتا ہے تو پہلے ہی سے اُفق پر روشنی چھا جاتی ہے اَور جس جس مکان میں روشن دان کھڑکیاں اَور روشنی پہنچنے کا راستہ ہوتا ہے وہاں وہ روشنی پہنچتی ہے، پہلے یہ روشنی ہلکی رہتی ہے مگر جب سورج پورا طلوع ہوجاتا ہے تو وہ روشنی حرارت آمیز ہو جاتی ہے، ایسے ہی حضراتِ اَنبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری کا جوں جوں وقت قریب آتا ہے تو پہلے ہی سے یہ برکت پھیل کر ہر اُس دِل میں جاگزیں ہو جاتی ہے جس میں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، بعد میں یہی برکت اِیمانی حرارت بن کراُس کو نبی کا کفش بردار بنادیتی ہے۔ (مستفاد: رسالہ آزاد، فتنۂ خمینیت نمبر ٢٧) طلوعِ آفتابِ رسالت : یہ برکتیں پہلے اَنبیاء کرام علیہم السلام کے لیے بھی نازل ہوتی رہیں لیکن ہمارے آقا سید المرسلین اِمام الانبیائ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ۖکے لیے جو برکت نازل ہوئی اُس کی شان ہی نرالی تھی، چنانچہ آ پ ۖ کی بعثت بلکہ پیدائش سے پہلے ہی سے اُس برکت کی جھلکیاں عرب کی سرزمین پر جابجا دِکھائی دینے لگیں، آپ ۖ کے ناناجان اَبی کبشہ نے بت پرستی کے مرکز مکہ معظمہ میں شرک سے بیزاری کا برملا اعلان کیا تھا اَور ورقہ بن نوفل جیسے بہت سے لوگ حق کی تلاش میں دین ِعیسوی کو قبول کرچکے تھے اَور ''اَلَا کُلُّ شَْئٍ مَاخَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ'' کے غلغلے جہالت و گمراہی کے اَندھیرے میں جگنو بن کر جگمگانے لگے تھے، تا آ نکہ رسول عربی حضرت محمد مصطفی ۖ نے مبعوث ہوکر فاران کی چوٹی سے نعرۂ توحید بلند کیا تو اُس نعرہ کو سنتے ہی جس دِل کے اَندر برکت کی روشنی پہنچ چکی تھی وہاں حرارت اِیمانی کے اِمتزاج سے اِسلام موجزن ہوا اَور جس دِل میں جتنی زیادہ حق کی کھڑکیاں اَور توحید کے دروازے تھے اُتنی ہی جلدی وہاں سے نغمہ توحید بلند ہوا، چنانچہ جب آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا تو سب سے پہلے جس نے دعوتِ اِسلام پر بِلا چوں و چرا لبیک کہا وہ ذات تھی صدیق اکبر ص کی، وہ ذات تھی بلال حبشی صکی ،وہ شخصیت تھی علی صبن ابی طالب کی ، وہ ذات تھی خدیجة الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا اَور زید بن حارثہص کی۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کسی کے دباؤ میں تھے، سبب یہ نہیں تھا کہ وہ قوم کے مظالم سے تنگ تھے، بات یہ نہیں تھی کہ اُن کے دِل دُنیا سے اُچاٹ ہو چکے تھے بلکہ اَصل واقعہ یہ تھا کہ اِن خوش نصیب اَفراد نے اُس