ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
موقع ملتاتھا، ایک مرتبہ کسی نے اِمام زین العابدین سے کہا تمہارے باپ کی اَولاد کس قدر کم ہے، آپ نے فرمایا اِس پر تعجب کیوں ہے، وہ رات و دِن میں ایک ایک ہزار نمازیں پڑھتے تھے عورتوں سے ملنے کا اُنہیں موقع کہاں ملتا تھا۔ یہ روایت مبالغہ آمیز ہے، اِس سے زندگی کی دُوسری ضروریات کے ساتھ ایک ہزار رکعتیں روزانہ پڑھنا ناممکن ہے، غالبًا راوی سے سہو ہو گیا ہے لیکن اِس سے اُن کی کثرتِ عبادات کا ضرور پتہ ملتا ہے، روزہ بھی کثرت کے ساتھ رکھتے تھے، تمام اَربابِ سیر آپ کی کثرت ِ صیام پر متفق ہیں۔ حج بھی بکثرت کرتے تھے اَور اَکثر پیادہ حج کیے، زُہیر بن بکار مصعب سے روایت کرتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ نے پچیس حج پیادہ کیے ۔ صدقات و خیرات : مالی اِعتبارسے آپ کو خدا نے جیسی فارغ البالی عطا فرمائی تھی، اُسی فیاضی سے آپ اُس کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ابن ِعساکر لکھتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں کثرت سے خیرات کرتے تھے کوئی سائل کبھی آپ کے دَروازہ سے ناکام نہ واپس ہوتا تھا، ایک مرتبہ ایک سائل مدینہ کی گلیوں میں پھرتا پھراتا ہوا دَرِدولت پر پہنچا، اُس وقت آپ نماز میں مشغول تھے، سائل کی صدا سن کر جلدی جلدی نماز ختم کر کے باہر نکلے، سائل پر فقرو فاقہ کے آثار نظر آئے، اُسی وقت قنبرخادم کو آواز دی قنبر حاضر ہوا آپ نے پوچھا ہمارے اِخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے۔ خادم نے جواب دیا، آپ نے دَو سو دِرہم اہلِ بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے، وہ اَبھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں ،فرمایا اُس کو لے آؤ اہلِ بیت سے زیادہ ایک مستحق آگیا ہے چنانچہ اُسی وقت دَو سو کی تھیلی منگا کر سائل کے حوالہ کردی اَور معذرت کی کہ اِس وقت ہمارا ہاتھ خالی ہے، اِس لیے اِس سے زیادہ خدمت نہیں کر سکتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دَورِ خلافت میں جب آپ کے پاس بصرہ سے آپ کا ذاتی مال آتاتھا تو آپ اُسی مجلس میں اُس کو تقسیم کردیتے تھے۔ صدقات و خیرات کے علاوہ بھی آپ بڑے فیاض اَور سیر چشم تھے شعراء کو بڑی بڑی رقمیں دے ڈالتے تھے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی فیاض تھے لیکن آپ کی فیاضی بر محل اَور مستحق اشخاص کے لیے ہوتی تھی، اِس لیے اُن کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بے محل فیاضیاں پسندنہ آتی تھیں، چنانچہ ایک مرتبہ اُن کو اِس غلط بخشی پر ٹوکا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بہترین مال وہی ہے جس کے ذریعہ سے آبرو بچائی جائے۔