ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
کیا گیاہے۔ چند مزید صورتیں، اِحتیاط، دَرگزر : مقدمات میں کن اِلفاظ سے گواہی دی جائے گی۔ اِس کی تمام تفصیل فقہ اَور فتاوی کی کتابوں میں موجود ہے ۔ میں اِحتیاط کی ایک مثال دے کر سمجھانا چاہتاہوں کہ چوری کی گواہی دیتے وقت یہ ہدایت دی گئی ہے کہ گواہ یہ بیان دے اَخَذَ، لَا، سَرَقَ اُس نے یہ سامان لیا ہے یہ نہ کہے کہ اُس نے یہ سامان چرایا ہے۔ (البحرالرائق ص ٦٠ ج ٧) گویا مقصد یہ ہے کہ بحد اِمکان اُسے ہاتھ کٹنے کی سزا سے خود مدعی اَور گواہ کو بچانا چاہیے یہی شریعت کی تعلیم ہے۔ ٭ مسند اَبی حنیفہ میں اِمام اعظم رحمة اللہ علیہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ جب جناب ِرسول اللہ ۖ نے اُس چور کے ہاتھ کا ٹنے کا فیصلہ دیا تو خود آپ کے چہرہ مبارک پر اِس سزا کے صدمہ کا اِتنا اَثر ہوا کہ چہرہ اَنور کا رنگ اِنتہا درجہ بدل گیا کَاَنَّمَا سُفَّ عَلَیْہِ وَاللّٰہِ الرِّمَادْ پھر آقائے نامدار ۖ نے صحابی کے جواب میں فرمایا کہ تم لوگوں نے اپنے مسلمان بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کی ہے۔ عرض کیا گیا کہ آنجناب نے اُسے چھوڑ دیا ہوتا۔اِرشاد فرمایا کہ یہی بات تم نے اُسے میرے پاس لانے سے پہلے کرلی ہوتی (یعنی مقدمہ مجھ تک نہ لاتے دعوے نہ کرتے گواہ پیش نہ کرتے) کیونکہ اِمام (قاضی) کے پاس تک جب کوئی حد کا کیس پہنچ جائے تو اُسے یہ نہ چاہیے کہ وہ اُسے تعطل میں ڈال دے ۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَور چاہیے کہ معاف کریں اَور دَر گزر کریں۔( مسند الامام الاعظم ص ١٥٥ ) گواہ اَصل ہی کیوں، قائم مقام کیوں نہیں : یہ سطور اِس لیے لکھ رہا ہوں کہ وجہ سمجھنے میں آسانی ہو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ٢٨٢ میں ذکر فرمودہ اصل ہی گواہ ہوں کو حدود میں کیوں لیا گیا ہے، قائم مقام یعنی ایک مرد دو عورتوں کو کیوں نہیں لیا گیا۔ مسند کی مذکور حدیث میں جناب رسالتمآب ۖ نے یہی ترغیب دی ہے کہ جب چور سے مال مل جائے تو بالا ہی بالا معاملہ ختم کردینا چاہیے یہی بہتر ہے اَور اِس سے پہلے گواہ کے بیان کے اِلفاظ میں کہ