ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
حدود و قصاص کے علا وہ باقی معاملات میں عورت کی گواہی : اِس کے سوا اُن کے اَور معاملات میں کیا اِختیارات ہوں گے وہ مثلاً عرض ہے بحرالرائق میں ہے کہ: ''نکاح، طلاق، وصیت، وکالت اَور نسب وغیرہ میں لین دین کے معاملات میں ہرجگہ عورتوں اَور مرد کی مِلا کر شہادت معتبر ہے کیونکہ عورتیں شہادت دینے کی اہلیت رکھتی ہیں کسی واقعہ کا مشاہدہ کرنا اُسے یاد رکھنا، اُسے دہرا سکنا، یہ سب باتیں اُن میں بھی ہوتی ہیں اَور بھول چوک کا احتمال بھی جہاں دوعورتیں ہوں نہیں رہتا عقل اَور سمجھ کی کمی کوئی غیر معمولی نہیں ہوتی ہے ور نہ اللہ تعالیٰ ضرور اُنہیں مردوں سے کم درجہ میں گناہ کا بھی مکلف قرار دیتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ وہ اَحکام ِاِلٰہیہ کی اِسی طرح مکلف ہوتی ہیں جیسے مرد ہوتا ہے اَلبتہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے اُن کی یہی کمی حدود میں ملحوظ رکھی جاتی ہے۔'' (اَلبحرالرائق ص ٦٢ ج ہفتم) مرد کے بغیر صرف عورت کی گواہی : اَور ایسے معاملات میں جو عورتوں کے متعلق ہوں عورتیں ہی اُنہیں جان سکتی ہوں صرف عورتوں کی گواہی کافی ہوتی ہے یہ مسئلہ تمام کتب ِفقہ و حدیث میں ہے۔ عورت علم و فضل، تحریرو اِنشاء ووٹ ،جج : عورتیں محدث بھی گزری ہیں اُن سے مردوں نے سند ِ حدیث لی ہے۔ اِمام بخاری رحمة اللہ علیہ کی کتاب کاایک نسخہ اُن کی محدث شاگرد کریمہ بنت ِاَحمد سے لیا گیا ہے۔ آخری دَور میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کی صاحبزادی محدث گزری ہیں اُنہوں نے ١٩٤٨ء کے قریب مدینہ منورہ میں وفات پائی اُن سے بہت سے علماء نے اِجازت ِحدیث لی ہے۔ ٭ عورتوں کا ووٹ بھی ایک کا ایک ہی شمار ہوگا۔ اِس پر آج کے دَورکے علماء کا اِتفاق ہے۔ ٭ عورتیں جج بھی ہوسکتی ہیں لیکن وہ حدود کے بارے میں فیصلے نہ دیں گی اَور باپردہ رہیں گی۔ (اَلبحرالرائق ص ٥ ج ٧ ۔ فتح القدیر ص ٨٥ ٤ ج٥ )