ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
یہ فرض ہے اَور اِس کے علاوہ جتنا بھی آتا جائے ضرورت سے زائد ہو خرچ کرتے جاؤ اَور یہ اِسلام کی تعلیم تھی اَور اِسی پر حکومتیں بھی چلتی رہیں تو اِقتصادی مشکلات ایسی بڑی پیدا نہیں ہونے پائیں کیونکہ ہر مسلمان کی عادت یہ بن گئی کہ وہ خرچ کرے ،قدرتی طور پر بنی بنائی ہے یہ عادت۔ اَب دیکھ لیں آپ یہاں کتنا خرچ کرتے ہیں مسلمان جہاں ہیں بہت خرچ کرتے ہیں ہندو نہیں کرتے خرچ مسلمان کے پاس ذرا سے پیسے آنے شروع ہوتے ہیں خرچ کی عادت اپنی اِختیار کرتا ہے۔ راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بے جا اِخراجات کرتے ہیں : اَب یہ اَلگ بات ہے کہ قوم کی رہبری نہیں کی گئی اُن کو یہ نہیں سکھایا گیا کہ خرچ کرو تو خدا کی راہ میں خرچ کرو اَور خدا کی راہ میں خرچ کرنا جانتے ہی نہیں لوگ اَپنی ذات پر اپنی تقریبات پر بیاہ پر شادی پر اِن چیزوں پر خرچ بہت کرتے ہیںخداکی راہ میں خرچ کرنا جسے اِنْفَاقْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کہا جائے وہ نہیں جانتے حتی کہ زکوة بھی حساب سے نہیں دیتے کچھ دے دی اَور سمجھتے ہیں دے رہے ہیں زکوة حالانکہ دینی چاہیے حساب سے وہ تو ایسا ہے جیسے کہ فقیر کا مال اُسے نہیں دیا بلکہ تم ہڑپ کر گئے یہ غلط کام ہے وہ دینا فرض ہے وہ رکھنا اپنے پاس ایسے ہے جیسے کہ کسی فقیر سے چھین کر اپنے کام میں لارہے ہو کیونکہ حق اُس کا ہو چکا ہے وہ دینا فرض ہے۔ آپ ۖ کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے زکوة دینے سے اِنکار کر دیا : اُنہوں نے سمجھا کہ یہ تو ایک ٹیکس تھا یا اَگر عبادت تھی تو رسول اللہ ۖ کے زمانے تک تھی۔ قرآنِ پاک میں آیا ہے خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَن لَّھُمْ زکوة لو صدقات لو اُن سے اَور اِن کو دُعاء دو اَوراِن کو آپ کی دُعاء سکون کا سبب بنے گی وہ سکینہ ہے بڑی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اُس دُعاء کی برکت سے دِلوں پر ۔ تو بعد میں کون ہے جو دُعاء ایسی کرے بہت بڑا اِشکال پڑ گیا یہ کہ اَبھی تو رسول اللہ ۖ تشریف فرماتھے جن کی ہر بات وحی تھی اَور اَب وہ آگئے جن کی کوئی بات وحی نہیں اَبوبکر رضی اللہ عنہ وہ اُمت میںسے ایک اُمتی ہیں سب سے اَفضل ہیں مگرنبی تو نہیں ہیں تو ایک دَم نبی کے بعد ایسا دَور آجائے کہ اُس جگہ کو سنبھالنے کے لیے جونبی کی جگہ تھی اُمتی آجائے تو تفاوت تو خود بخود پڑنا ہی تھا اُس میں پھر یہ شکلیں پیدا ہوئیں ۔