ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
اَخَذَ (اُس نے یہ مال لیا) کہے سَرَقَ (چرایا ہے) نہ کہے اِسی چیز کو ملحوظ رکھاگیا ہے۔ کیونکہ قاضی کے سامنے پیش ہوجانے کے بعد بھی آخر وقت تک بچ جانے کی گنجائش ہوتی ہے مالک ِ مال اپنا بیان ذرا بھی نرم کردے تو وہ اِس سخت سزا سے بچ جائے گا۔ کس کس طرح وہ اُسے بچایا جا سکتا ہے اِس کے پندرہ سولہ طریقے تو عام کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ جب خدا وہ وقت لائے گا وہ بھی معلوم ہوجائیں گے۔ اِشکال و جواب: چور و قاتل کا عورت کے سوا گواہ نہ ہوتو ؟ بعض لوگوں نے یہ سوال بھی کیا ہے کہ چور اَور قاتل کا اگر عورت کے سوا کوئی گواہ نہ ہوتو مال بھی نہ ملے گا اَور جان بھی ضائع ہوجائے گی۔ تو اِس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ ہم آج اُن کالے قوانین کی موجودگی میں اِسلامی قوانین اَور اُن کی سرعت ِنفاذ و فیصلہ کا تصور نہیں کر سکتے اِسلام میں کسی بھی مجرم کو پکڑنے کے بعد ریمانڈ کی آرام گاہ سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا وہ سیدھا قاضی کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے اُس سے قاضی خود بات کرتا ہے مقدمہ سن کر فیصلہ دیتا ہے۔ مجرم کو اِتنا موقع نہیں ملتا اَور اُسے ایسے اَسباب نہیں میسر آسکتے کہ وہ اپنے جرم کوچھپانے کے لیے خود کو تیار کر سکے۔ اِس لیے آج دُنیا میں جہاں کہیں تھوڑے بہت اِسلامی قوانین جاری ہیں وہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کا خون رائیگاں جائے، ایک عورت کیا ایک بچہ کی خبر پر بھی مجرم کو پکڑ لیا جائے گا اَور اُسے اِقرار کرتے ہی بنے گی۔ جناب ِ رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک مسلمان بچی کا سر پتھر سے کچل دیا۔ وہ ہوش میں تھی لیکن بول نہ سکتی تھی۔ اُس سے پوچھا گیا کہ تجھے کس نے مارا ہے؟ کیا فلاں نے مارا ہے؟ یا فلاں نے مارا ہے؟ وہ نفی میں اِشارہ کرتی رہی حتی کہ مار نے والے کا نام لیا گیا تو اُس نے اثبات میں اِشارہ کیا جس پر اُسے پکڑ لیا گیا پوچھ گچھ ہوئی تو اُس نے اِقرار ِجرم کرلیا پھر اُسے بھی اِسی طرح مار دیا گیا۔(بخاری ص ٣٢٥) یہ واقعہ میں نے مثلاً لکھا ہے یہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں موجود ہے۔ خبر پر بھی کارروائی ہوسکتی ہے : سب علماء جانتے ہیں اِس لڑکی کا بیان خبر ہی کہلائے گا۔ اِسی طرح کسی بچہ اَور عورت کا بیان شرعی نقطۂ نظر سے خبر کہلائے گا اگر گواہ صرف ایک مرد ہوگا تو بھی خبر کہلائے گا گواہی نہیں مگر یہ خبر بہت وزنی ہوگی اِس پر مجرم کو پکڑ لیاجائے گا۔