ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
قسط : ٣،آخری حضرت اِمام حسین بن علی رضی اللہ عنہما ( حضرت مولانا شاہ معین الدین صاحب ندوی ) فضل و کمال : آنحضرت ۖ کی زندگی میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کم سن بچے تھے اِس لیے براہِ راست ذاتِ نبوی ۖسے اِستفادہ کا موقع نہ مِلا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ علم و عمل باپ کی تعلیم و تربیت نے اِس کی پوری تلافی کردی، تمام اَربابِ سیر آپ کے کمالاتِ علمی کے معترف ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر، اِمام نووی، علامہ ابن اَثیر تمام بڑے بڑے اَربابِ سیر اِس پر متفق ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ بڑے فاضل تھے ۔( اِستیعاب ابن عبدالبر، تہذیب الاسماء نووی اَور اُسد الغابہ وغیرہ تراجم حسین ) لیکن اَفسوس اِس اَجمالی سندکے علاوہ واقعات کی صورت میں اُن کمالات کو کسی سیرت نگار نے قلمبند نہیں کیا ہے۔ اَحادیث ِنبوی ۖ : حضرت حسین رضی اللہ عنہ خانوادۂ نبوی ۖ کے رُکن ِرکین تھے اِس لیے آپ کو اَحادیث کا بہت بڑا حافظ ہونا چاہیے تھا لیکن صغرِ سنی کے باعث آپ کو اِس کے مواقع کم مِلے اَور جو مِلے بھی اُس میں اَبھی آپ کا فہم و حافظہ اِس لائق نہ تھاکہ سمجھ کر محفوظ کر سکتے۔ اِس لیے براہ ِراست آنحضرت ۖ سے سُنی ہوئی مرویات کی تعداد کل آٹھ ہے(تہذیب الکمال ص ٨٣) جو آپ کی کم سنی کو دیکھتے ہوئے کم نہیں کہی جاسکتی اَلبتہ بالواسطہ روایات کی تعداد کافی ہے۔ آنحضرت ۖ کے علاوہ جن بزرگوں سے آپ نے حدیثیں روایت کی ہیں اُن کے نام یہ ہیں : حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرہ ،ہند بن اَبی ہالہ، عمر بن الخطاب وغیرہ۔ جن رُواة نے آپ سے روایتیں کی ہیں اُن کے نام یہ ہیں : آپ کے برادرِ بزرگ حضرت حسن ،صاحبزادہ علی اَور زید، صاحبزادی سکینہ، فاطمہ، پوتے اَبو جعفر الباقر، عام رُواة میں شعبی، عکرمہ، کرز التمیمی ،سنان بن اَبی سنان دولی،