ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
اَب اِن کے بارے میں اِس سے آگے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں۔ غور سے پڑھیے یہ اِلفاظ : اَللّٰہَ اَللّٰہَ ! فِْ أَصْحَابِْ، اَللّٰہَ اَللّٰہَ ! فِْ أَصْحَابِْ، لَا تَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا مِّنْ بَعْدِْ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّیْ أَحَبَّہُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِْ أَبْغَضَہُمْ وَمَنْ آذَاہُمْ فَقَدْ آذَانِْ، وَمَنْ آذَانِْ فَقَدْ آذَی اللّٰہَ ، وَمَنْ آذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَّأْخُذَ۔ ( ترمذی شریف ٢/٢٢٥، مشکٰوة شریف :٥٥٤) ''اللہ سے ڈرتے رہو! اللہ سے ڈرتے رہو! میرے صحابہث کے بارے میں۔ اللہ سے ڈرتے رہو !اللہ سے ڈرتے رہو! میرے صحابہ ث کے بارے میں۔ میرے بعد اِن کو طعن و تشنیع کا نشانہ مت بنانا۔ پس جو اِن سے تعلق رکھے گا وہ میری محبت کی وجہ سے اِن سے تعلق رکھے گا اَور جو اِن سے نفرت کرے گا تو مجھ سے بغض کی وجہ سے اِن سے نفرت کرے گا۔ اَور جس نے اِنہیں تکلیف پہنچائی اُس نے مجھے اَذیت دی اَور جس نے مجھے اَذیت دی اُس نے اللہ کو تکلیف دی اَور جو اللہ کو ستائے توعنقریب اللہ تعالی اُس کی گرفت فرمائیں گے۔ '' علاوہ اَزیں قرآن کریم میں خود رَب العالمین نے صحابہ ث کو دُنیا ہی میں جا بجا اپنی رضا کا تمغہ عطا فرمایا ہے۔ اَور اُن کے اِیمان کو معیارِ اِیمان قرار دیاہے اَور اُن کی صفات ِعالیہ بیان کرکے تمام عالَم کے سامنے اُن کی عظمت کو اُجاگر فرمادیا جس سے کوئی شخص اِنکار نہیں کرسکتا۔ صحابہ ث معیار ِ حق ہیں : اہل سنت والجماعت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حضرات ِصحابہث سب کے سب عادل اَور معیار حق ہیں۔ کسی حدیث کے راویوں میں سے ہر راوی پر اُنگلی اُٹھائی جاسکتی ہے لیکن جب بات صحابی تک پہنچ جائے تو اُن کے متعلق کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اِس لیے کہ اگر صحابہ ہی کو شک کے دائرے میں لایا جائے گا تو پھر دین کی بنیاد ہی منہدم ہو جائے گی۔ پھر نہ تو قرآن پر اعتماد باقی رہ سکتا ہے نہ دیگر اِسلامی تعلیمات پر، اِس لیے کہ اُمت کو جو کچھ بھی دین ملا ہے وہ صحابہ ث کے واسطہ سے ہی ملا ہے، صحابہ ث اَساتذۂ اُمت ہیں، کسی بھی شخص کو کسی بھی حال میں کسی صحابی کے بارے میں اُنگلی اُٹھانے کا ہرگز حق حاصل نہیں۔