ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
تسلیم و رضا ء اَور فنائیت کی ایک جھلک اِس مختصر حدیث میں بیان فرمائی ہے : آنحضرت ۖ نے صحابہ کرام سے سوال کیا کہ تمہارے اِیمان کی کیا علامت ہے تو اُنہوں نے عرض یا : نَصْبِرُعَلَی الْبَلَائِ وَنَشْکُرُ عَلَی الرِّخَآئِ وَنَرْضٰی بِمَوَاقِعِ الْقَضَآئِ ۔ (الحدیث)''بلایا پر صبر کرتے ہیںاَور فراخی میں شکر کرتے ہیں اَور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہتے ہیں۔'' بادی النظر میں صبر و شکر نہایت معمولی چیز معلوم ہوں گے لیکن حقیقت اِس کے خلاف ہے کیونکہ بلا یا اَور مصائب میں صبر حقیقی کرنا اَور فراخی اَور کشادگی میں شکر کرنا اَور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اِظہارِ رضامندی کرنا نہایت ہی دُشوار ہے۔ میں اِن تینوں کی تعبیر غلامانہ ڈیوٹی کے اَنجام دینے سے کرتا ہوں اَور میرے خیال میں یہی ترجمہ صحیح معلوم ہوتاہے جس کو اِحیاء العلوم کی مذکورة الصدر عبارت میں بیان کر چکا ہوں، یاد رہے فراخی میں شکر آسان ہے لیکن مصائب میں صبر اَور توکل مشکل ہے۔اِس موقع پر اَنبیاء علیہم السلام بھی مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ پکار اُٹھتے ہیں اللہ تعالیٰ آزمائش سے محفوظ رکھے، آمین۔ حضرت شیخ الاسلام نے مصائب اَور بلایا پر جس طریقہ سے صبر کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، مصائب اَور بلایا میں مسکراتے ہوئے آپ ہی کو دیکھا ہے۔ آپ مالٹا میں مقید تھے کہ مدینہ منورہ میں لخت ِجگر اَور محرم ِراز کا اِنتقال ہوگیا اَور برادرِ حقیقی اَور والدِ محترم کا اِنتقال اَیڈر یا نوپل میں ہوگیا تب اُف نہ کیا۔ قیامِ مدینہ منورہ میں بھوکے پیاسے رہے لیکن کسی سے اِظہار نہ کیا اَور اپنی وضع داری پر قائم رہے، ہندوستان کی جنگ ِآزادی میں قید و بند کی سختیاں برداشت کیں کبھی کسی سے مصائب کا تذکرہ بھی نہ کیا، غنڈوں نے پتھروں اَور تلواروں سے حملہ کیا تب مسکراتے رہے، اِس کا نام ہے بلایا اَور مصائب پر صبر، اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھول دیا اَور رجوعِ عامہ کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمہ وقت شکر ِپروردگار اَور ذکرو شغل میں اَور درس و تدریس میں مشغول رہے اَور قرآنِ پاک کی اِس آیت کا مصداق بن گئے۔