ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
جب مشاہدہ حق میں یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے تو وہ اِنسان آنحضرت ۖ کے اِس اِرشاد کا مصداق ہوجاتا ہے : کُنْتُ سَمْعُہ اَلَّذِیْ یَسْمَعُ بِہ وَ بَصَرُہ اَلَّذِیْ یَبْصُرُ بِہ ۔ (رواہ البخاری) ''میں اُس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اَور آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے ۔'' اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوة والسلام کے اِسی مقام کو قرآنِ پاک میں اِس طرح بیان کیاہے : وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔( سُورة الانفال آیت ١٧) '' جب آپ نے دُشمنوں کی طرف ایک مٹھی ریت پھینکا وہ آپ ۖ نے نہیں پھینکا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکا تھا۔ '' اَلحاصل مقام ِ تسلیم و رَضاء یا فناء فی اللہ نہایت اُونچا اَور بلند مقام ہے اَور اِنسان کے غایت درجہ تقرب الی اللہ پر دَلالت کرتا ہے، اِسی مقام کو شریعت کی اِصطلاح میں ''مقام ِ عبودیت'' کہتے ہیں جب کسی اِنسان کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی عظمت رَچ جاتی ہے تو اُسکو اپنی بندگی کا اِحساس ہر آن رہنے لگتا ہے اَور اُسکا کوئی فعل یا عمل مرضیاتِ باری کے خلاف نہیں ہوتا اَور یہ کیفیت اُسی وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تصور ہمہ وقت اَور اپنی مجبوری ہمہ وقت مستحضر رہے یہی اِنسان کی معرفت ہے جس کے بارے میں فرمایا ہے : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ۔(الحدیث) ''جس نے اپنی عبدیت کو محسوس کرلیا اُس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلی۔ '' اَور یہ بات اُسی وقت حاصل ہوتی ہے کہ نہ اپنا سونا سونا، نہ اپنا جاگنا جاگنا ،نہ اپنی راحت راحت، نہ اپنی حاجت حاجت ،نہ اپنا اِرادہ اِرادہ ،اِسی چیز کو اِنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ میں بیان کیا ہے جب یہ حالت اَور کیفیت کسی بندہ کی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے لیے اِعلان ہے :اَ لَا اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَاخَوْف عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ ( سُورہ یُونس ٦٢ )''خبردار ہوجاؤ! اللہ کے دوستوں کو نہ خوف ہوگا اَور نہ غمگین ہوں گے۔ ''