ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
ہے : فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْکُمْ( سُورة النساء پارہ ٤ آیت ١٥) '' ایسی عورتوں پر اَپنوں میں سے چار مرد گواہ لاؤ۔'' اَور اَٹھارویں پارہ میں سورۂ نور کی چوتھی آیت میں ہے ثُمَّ لَمْ یَأْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُھَدَائَ ''جو لوگ پاک دامن عورتوں پر عیب کا اِلزام لگاتے ہیں ''پھر وہ چار مرد گواہ نہ لائیں تو اُن کے اَسی کوڑے مارو اَور اُن کی کبھی کوئی گواہی نہ مانو۔ اِن دونوں آیتوں میں '' اَرْبَعَة '' فرمایا گیا ہے جس کا ترجمہ ہے ''چار مرد'' ( اَور اگر '''اَرْبَع '' فرمایا جاتا تو ترجمہ ہوتا''چار عورتیں'' ) نص ِقرآنی سے صرف مرد گواہوں کا ہونا ہی ثابت ہو رہا ہے۔ (اَلبحرالرائق ص ٦٠ ج ہفتم) اگر تین مرد یا دو عورتیں ہوں تو یہ بھی '' اَرْبَعَة '' کے مطابق نہ ہوگا '' اَرْبَعَة '' اَور '' اَرْبَع '' چار کے لیے ہے اَور تین مرد دو عورتیں چار نہیں پانچ بن جاتے ہیں۔ (فتح القدیر ص ٦ ج ششم) نوٹ : ہرجگہ یہ ہدایت الگ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی بات دیکھے تو بہتر یہی ہے کہ اُسے کیس نہ بنائے بلکہ پردہ داری کرے۔ قتل اَور چوری میں دو مردوں کے گواہ ہونے کی بنیاد : زِنا کے سوا مثلاً قتل اَور چوری میں دو مرد ہی گواہ ہونے ضروری ہیں جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ٢٨٢ میںمالی معاملات کے ذیل میں ہے اِس میں اَصل یہ جملہ قرار دیا گیا ہے کہ شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ اَپنوں میں سے دو مرد گواہ ہوں لہٰذا حدود میں یہ اَصل ہی اگر ہوں گے تو حکم دیا جائے گا اَور حد جاری کی جائے گی اَور اگر اصل نہ ہوں گے بلکہ اَصل کے قائم مقام ایک مرد اَور دو عورتیں ہوں گی تو حد جاری نہ کی جائے گی۔ یہی طریقہ جناب رسول اللہ ۖ اَور آپ کے بعد حضرت اَبو بکر اَور اُن کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے ،اِسی پر اِجماع ہے۔(فتح القدیر ص ٦ ج ٦۔ عنایہ وسعدی جلبی الثانی اَور اَلبحرالرائق ص ٦٠ ج ٧ ) یہ اِن آیات کی تفسیر ہے اَور یہی صحیح ترین تفسیر ہے جو حدیث فقہ اَور تاریخ میں اِجماعِ اُمت سے ثابت ہے اِس سے اِنحراف نہیں کیا جاسکتا بہرحال مجرم اَور گناہ گار کو توبہ اَور اِصلاح کا موقع طرح طرح مہیا