ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
پھر حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی نے آپ کی تشکیل جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدرآباد کے لیے کردی جہاں آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط دینی خدمات اَو رذمّہ داریوں کو تادم آخر اَحسن طریقہ سے نبھایا۔ والد گرامی نے خدمت دین کو خالص اللہ تعالی کے لیے مطمع نظربنائے رکھا، اُن کے ہر دینی عمل میں خلوص اَور للہیت رہی، اُنہوں نے کبھی نمود و نمائش کے لیے دین کی خدمت اَنجام نہیں دی، اِنکساری و تواضع، عاجزی اَور فروتنی اُن کا اِمتیازی نشان رہی، اُنہوں نے اپنے آپ کو کبھی مسعود خلائق نہیں بنایا، کبھی عوام سے سجدے نہیں کرائے، نہ دست بوس اَور قدم بوسی کی عوام سے اُمید رکھی،نہ محراب و منبر پر خفیف الحرکاتی کا شیوہ رہا۔ حضرت اَقدس والد گرامی کی فنائیت و بے نفسی کے متعلق میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کبھی آپ نے ایک کلمہ بھی ایسا نہیں فرمایا جس میں اپنی تعریف کی بو آتی ہو، حبِّ جاہ کا یہاں سر کٹا ہوا تھا، آپ کے کلمات کی سربلندی کی ایک شان سادگی و اِنکساری تھی، کسی نئے آنے والے کے لیے یہ اَندازہ لگانا مشکل تھا کہ آپ ایک اِتنے بڑے متبحّر عالم و عظیم مفتی ہیں۔ حضرت والد گرامی کی نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط دینی خدمات اُن کی زندگی کا روشن اَور تابناک باب ہے اَور اُن کے ہزاروں شاگرد ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں اُستاذ العلماء شیخ التفسیر و الحدیث حضرت مولانا منظور اَحمد صاحب نعمانی ظاہر پیر، حضرت مولانا میاں مسعود احمد صاحب دین پوری ، مولانا عبدالشکور صاحب دین پوری، سینیٹر حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری (مرکزی سیکریٹری جنرل جمعیت علمائِ اِسلام پاکستان)، حضرت مولانا حافظ حسین اَحمد صاحب شرودی سابق صوبائی وزیر بلدیات بلوچستان،حضرت مولانا عبدالقادر صاحب آزاد سابق خطیب بادشاہی مسجد لاہور، حضرت مولانا فداء الرحمن صاحب درخواستی ، حضرت مولانا عبدالباقی صاحب آف بلوچستان، حضرت مولانا عبدالرشید خلیق صاحب آف لاہور جیسے جید اَور بزرگ علماء کرام شامل ہیں جبکہ ملک کے ممتاز عالم دین وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب اَور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی آپ کے ہم درس اَور رُفقاء میں سے تھے ،یہ اِس دَور کا اَلمیہ ہے کہ علمی شخصیات رفتہ رفتہ