ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
بے درد ہو کرمارنا بڑا گناہ ہے ۔ کسی آدمی یاجانورکو آگ سے جلانا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کا دستور ہے کہ لڑکوں سے دُوسرے لڑکوں کے چپت لگواتے ہیں مگرمیں اِس سے منع کرتا ہوں یہ بہت غلط طریقہ ہے کہ اِس سے آپس میں عداوت(دُشمنی)ہوجاتی ہے۔ ماں باپ کا ظلم اَور زیادتی : غضب یہ ہے کہ بعض دفعہ چھوٹوں پر بھی بری طرح غصہ کیا جاتا ہے اَور وہ بالکل بے بس ہوتے ہیں اِن کی طرف کچھ بھی بدلہ نہیں ہوسکتا ۔ بچوں پر جو ظلم ماں باپ کی طرف سے ہوتا ہے وہ اُسی کا ہے۔ بعضے ماں باپ ایسے قصائی ہوتے ہیں کہ بچہ کو اِس طرح مارتے ہیں جیسے کوئی جانورکو مار تا ہے بلکہ جیسے کوئی چھت کو کوٹتا ہے اَور گر کوئی منع کرے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اِختیار ہے ہم اِس کے باپ ہیں۔ یاد رکھیے !باپ ہونے سے ملک رقبہ ( یعنی اُس کی جان کی ملکیت) حاصل نہیں ہوتی ورنہ یہ بھی ہوتا کہ باپ بیٹے کو بیچ لیا کرتا ۔ باپ کا رُتبہ حق تعالیٰ نے بڑا کیا ہے۔اِس واسطے نہیں کہ چھوٹے اِس کے مِلک ہوں اَور اُس سے چھوٹوں کو تکلیف پہنچے بلکہ اِس واسطے کہ چھوٹوں کی پرورش کرے اَور اُن کو آرام دے۔ ہاں کبھی اِس آرام دینے کی ضرورت سے سزا اَور تنبیہ کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اَور اِس کی اِجازت ہے۔ سزا میں کتنی مار مار سکتے ہیں : تنبیہ کرنے اَور سزا دینے کی ضرورت پڑتی ہے اَوراِس کی اِجازت ہے اَور اَلضَّرُوْرَةُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِالضَّرُوْرَةِ (یعنی ضروری بقدرِضرورت ہی ضروری ہوتاہے)کے قاعدے سے اُتنی ہی تادیب(سزا) دینے کی اِجازت ہوسکتی ہے جو پرورش اَور تربیت میں مفید ہو نہ اِتنی جو کہ درجہ اِیلام (سخت تکلیف اَور مصیبت) تک پہنچ جائے۔ اَور ماں باپ سے ایسی زیادتی گناہ ہونے کے علاوہ اِنسانیت اَور فطرت کے بھی خلاف ہے۔ ماں باپ کو تو حق تعالیٰ نے محض رحمت بنایا ہے اُن سے ایسی زیادتی ہونا اِس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص اِنسانیت سے بھی خارج ہے۔ ضربِ فاحش(سخت مار) سے فقہاء نے صراحتًا منع فرمایا ہے اَور جس مار سے کھال پر نشان پڑ جائیں