ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
علم و عرفان کا بحر بیکراں شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب ( مولانامحفوظ الرحمن صاحب شمسی ،نگراں تعلیمات جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدرآباد) جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدرآباد کے مہتمم، چمنستان معرفت کے گل ِسرسبز اَور علم و حکمت کے آفتاب جامع الشریعت ،مخدوم العلماء و اُستاذ العلماء ،یادگار اَسلاف، فاضل دارُالعلوم دیوبند، شیخ العرب والعجم حضرت اَقدس مولاناسیّد حسین اَحمد صاحب مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص مفتی اعظم سندھ میرے والد ماجد، مرشدی و اُستاذی حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کی وفات ِاَلمناک کا لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ وہ نور کا مینار تھے جو چلے گئے ، وہ علم وعرفان کا بحر بیکراں تھے جو ہم کو روتا چھوڑ کر چلے گئے، آج ہم دورِ حاضر کے ایک عظیم محقق، عظیم مدقق، عظیم مفتی اَور عظیم اُستاذ سے محروم ہوگئے۔ وہ صفات کمال و جمال کے مرقع تھے جن کی مثیل و نظیر ہمیں کہیں نہ ملے گی۔اَبو جی کی سادگی ہی قرونِ اُولیٰ کی مثال اَور سیدنا حضور نبی کریم ۖ کے قول ''المومن غر کریم ''کے مصداق تھے، علم وفضل میں بقراط و سقراط تھے۔ دِلنشین اَنداز تدریس کے حامل اُستاذ آج ہمیں بحر تحیرمیں چھوڑ کر راہی جنت ہوئے، آپ کے فتاوی نہایت تحقیق و تدقیق کے حامل ہوا کرتے تھے وہ مسند افتاد کی زینت تھے۔ علم و حکمت کے روشن ومنّور آفتاب میرے والد ماجد ١٩٢١ ھ میں ضلع ہری پور ہزارہ کی ایک بستی اَنورہ کے دیندار گھرانے میں رحمت اللہ ولد ہدایت اللہ کے گھر پیدا ہوئے۔ اَبھی آپ کی عمر مبارک تین سال کی ہی تھی کہ آپ کے والد گرامی فوت ہوگئے، ایک موقع پر مجھے فرمانے لگے کہ ''میرا اَللہ تعالی کے سوا کوئی سرپرست نہ تھا اَور نہ کوئی معاون،اللہ رب العزت خود کہاں سے کہاں لے گیا۔'' آپ نے اِنتہائی شوق لگن اَور سخت محنت و جدوجہد سے علم دین حاصل کیا یہاں تک کہ آپ کا یہ شوق آپ کو دارُالعلوم دیوبند تک لے گیا اَور آپ نے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ